My Blog List

Thursday, June 7, 2012

"عاصمہ جہانگیر کی فوج پر الزام تراشی" آخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔۔۔


 

فوج عاصمہ جہانگیر کو کیوں قتل کرائے گی؟ یہ سوال عاصمہ جہانگیر کی پانچ جون کو ہونے والی ہنگامی پریس کانفرنس کے بعد اکثر لوگ پوچھ رہے ہیں۔ کیونکہ پہلی بار ملک میں کسی وکیل یا اہم شہری نے پاک فوج پر کی اعلیٰ قیادت پر  اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے جیسا سنگین الزام لگایا ہے۔ لیکن خدشات یا معاملات کی روشنی میں خاتون ایک بھی دلیل نہیں دے سکی جس کی بناء لوگ اس کے موئقف کی صداقت پر یقین کرتے۔

 

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صابق صدر، دنیا میں خواتین کی واحد چیمپئن (یہ الگ بات ہے کہ آج تک کسی حقیقی مظلوم خاتون کو اس کی مدد سے کوئی انصاف نہیں ملا)، پاکستان کی آئرن لیڈی اور بھارت کی چہیتی عاصمہ جہانگیر نے 5 جون کی شام ایک ہنگامی پریس کانفرنس کا اعلان کیا جس کے لئے صحافی صبح سے انتظار کر رہے تھے۔ عا صمہ جہانگیر نے بڑے جوشیلے انداز میں کہا کہ "میرے قتل کی سازش تیار کی گئی ہے" (بتانے کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی انتہائی اہم نوعیت کا اعلان ہو)۔ عاصمہ نے مزید کہا کہ اس کے قتل کی منصوبہ بندی نان سٹیٹ ایکٹرز (مطلب ملک میں سرگرم انتہا پسند) نے نہیں بلکہ ریاست کے سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام نے کی ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنے قتل کی صورت میں اس کی زمہ داری پیشگی ملک کے سیکورٹی اداروں پر ڈال دی ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ ڈر کر ملک سے بھاگنے والی نہیں۔

 

تاہم حیران کن طور پر عاصمہ جہانگیر نے وہ تمام باتیں پھر سے دوہرائیں جو اس نے حسین حقانی کے میمو گیٹ کے مقدمے کی سماعت کے دوران صحافیوں سے گفتگو کے دوران کی تھیں کہ ملک کی قسمت کا فیصلہ فوج کے جرنیلوں نے نہیں ملک کے عوام کو کرنا ہے۔ البتہ پہلی بار جرنیلوں کے ساتھ اس نے 17 ججوں کا بھی ذکر کیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جرنیلوں، ججوں اور پارلیمینٹیرینز کو توسیع ملنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ علاوہ اذیں اس کو ایجنسی کے سربراہ کو فوج کا سربراہ بنائے جانے پر بھی اعتراض تھا (یہ اشارہ جنرل کیانی کی طرف تھا جو فوج کی اعلیٰ کمانڈ سنبھالنے سے پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ تھے)۔

 

گو عاصمہ جہانگیر نے پریس کانفرنس کو ہنگامی قرار دے کر اچانک اس کا اعلان کیا تھا لیکن ایک روز قبل 4 جون کی شب کاشف عباس اور نجم سیٹھی کے ٹاک شوز میں وہ اپنا مدعا ذیادہ کھلے انداز میں بیان کر چکی تھی۔ نجم سیٹھی کے پروگرام میں اس واضح طور پر فوج کے اعلیٰ حکام کو اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنا کا زمہ دار قرار دیتے ہوئے بار بار کسی اہم آدمی کا ذکر بھی کیا جس نے اسے منصوبہ کی اطلاع دی۔ مگر حیران کن طور پر نہ تو نجم سیٹھی نہ ہی کاشف عباس نے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی کہ وہ کون صاحب تھے جنہوں نے عاصمہ جہانگیر تک اس کے قتل کی منصوبہ بندی کی اطلاع پہنچائی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ نجم سیٹھی نے دو ٹوک الفاظ میں عاصمہ جہانگیر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کون آپ کو ہاتھ لگانے کی جراَت بھی کرتا ہے۔

 

عاصمہ جہانگیر کا تعلق پاکستان کے اس ترقی پسند طبقے سے ہے جس کی مذہب بیزاری مسلمہ حقیقت کی طرح سب پر عیاں ہے، لیکن یہ عجیب طرح کی مذہب بیزاری ہے جس نے اس طبقہ کو ہندو انتہا پسندوں سے انتہائی قریب اور ان کا اس حد تک حامی بنا دیا ہے کہ وہ ان کے مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے؟ ترقی پسند ہونا کوئی گناہ نہیں نہ ہی کسی کے ذاتی نظریئے و موقف پر اتراض کرنے کا ہمیں کوئی حق حاصل ہے۔ لیکن اپنی مذہبی اقدار سے بغاوت و مذہبب بیزاری کا اظہار کرنے والا یہ طبقہ جب دیوالی پر دیئے جلا کر واہگہ پر ہندووَں سے یک جہتی کا اظہار کے لئے پہنچتا ہے اور وہاں سے ماتھے پر تلک لگوا کر خوشی سے جھومتا ہے تو پھر ہر پاکستانی کو ان سے پوچھنے کا حق ہے کہ اسلام سے بیزاری اور ہندومت سے دلداری کا کیا مطلب؟ پھر پاکستان کام یہی طبقہ ملک کے سیکورٹی اداروں کا ہمیشہ سے مخالف رہا ہے، جس کی وجہ ملک میں بار بار لگنے والے مارشل لاء بتائے جاتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے ملک کی سلامتی کے سب سے بڑے دشمن بھارت سے مل کر وطن کے رکھوالوں کے خلاف سازشیں کی جائیں؟ حالانکہ ملک میں بہت سے ایسے نامور نام ہیں (نوبزادہ نصراللہ خان صاحب جیسے) جنہوں نے فوجی آمروں کی مخالفت میں جیلیں کاٹی لیکن بھارت کی ہمنوائی کبھی نہیں کی نہ ہی فوج سے اختلافات کو اپنے لئےوجہ شہرت بنایا۔

 

لیکن گزشتہ ساڑھے چار سال سے پاک فوج سیاست نسے دور ہے، مکمل طور پر لاتعلق ہے۔ عوام الناس کے شدید ترین تحفظات اور ملک میں امن و امان اور انتظامی بد حالی کی بد ترین صورتحال کے باوجود فوج نےسیاست میں مداخلت نہیں کی یہاں تک کہ خارجہ پالیسی، نیٹو سپلائی کی بحالی سے لے کر امریکہ سے تعلقات نو کی تشکیل تک سب کچھ پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے تو پھر عاصمہ جہانگیر کو فوج پر اپنےقتل کی منصوبہ بندی کرنے جیسے سنگین الزام لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اگر فوج پر تنقید ہی اس کا سبب ہے پھر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کو یہ الزام لگانا چاہئے تھا جس نے "ملٹری انکارپوریٹ" نامی کتاب لکھ کر  پاک فوج کو بد نام کرنے کی عملی کوشش کرنے کے علاوہ اخبارات میں کالم کے ذریعے بھی فوج پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا اور ٹیلی ویژن پر بھی فوج کے خلاف بولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ فوج کو جنوبی ایشیا میں انتشار و بد امنی کا سبب اور دہشت گردی کو فروغ دینے ادارہ کہنے والے احمد رشید نے بھی کبھی نہیں کہا کہ اسے فوج کی طرف سے قتل کرائے جانے کا خدشہ ہے، حالانکہ اس نے اپنی کتابوں میں فوج کے خلاف جو زہر اگلا ہے عاصمہ جہانگیر نے اس کا ایک فیصد بھی نہیں کہا۔ اور بھی ایسے بہت سے ایسے صحافی و تبصرہ نگار ہیں جو فوج اور پر تنقیند کی ہی کھٹی کھا رہے ہیں۔ تو پھر عاصمہ جہانگیر ہی کیوں؟

 

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف عاصمہ جہانگیر ہی دے سکتی ہیں کہ فوج اسے کیوں قتل کرانا چاہے گی؟ یہ کہہ کر تو اس نے ملک دشمن قوتوں اور ان کی پاک فوج و آئی ایس آئی مخالف ایجنسیوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے کہ وہ عالمی سطح پر پاک فوج و پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کے لئے عاصمہ جہانگیر کو قتل کرا دیں۔  پھر ملک میں سر گرم دہشت گرد جن کا ہدف ہی پاک فوج اور فوجی تنصیبات ہیں عاصمہ جہانگیر کو ٹھکانے لگا کر پاک فوج کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان تمام خطرات کے باوجود اگر عاصمہ جہانگیر نے فوج پر اتنا سنگین الزام لگایا ہے تو پھر اس کے مقاصد کا منظر عام پر آنا بے حد ضروری ہے ملک کے لئے بھی اور پاک فوج کی ساکھ کے لئے بھی۔ جس کے لئے سب سے پہلے تو وہ سورس عوام کے سامنے لایا جائے جس نے عاصمہ جہانگیر کو اس کے قتل کے منصوبہ کی اطلاع دی، پھر وہ سور س بتائے کہ یہ منصوبہ کب، کہا ں اور کس نے تیار کیا؟

 

عاصمہ جہانگیر جیسی جہاں دیدہ وکیل اگر سورس بتانے کو تیار نہیں تو پھر عوام اس کے خدشات اور فوج پر سنگین الزام کو کیا سمجھے کہ یہ سب سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا گیا؟ جی نہیں، بالکل نہیں۔ اس سے بڑھ کر عاصمہ جہانگیر کو اور شہرت کیا ملے گی جو آج اسے حاصل ہے۔  کہیں عاصمہ جہانگیر کی پریس کانفرنس اور اس سے ایک روز قبل فوج کے میڈیا ٹرائل کا تعلق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے کے حوالے سے منظر عام پر  آنے والے سکینڈل سے تو تعلق نہیں؟  کہ اس طرح فوج کو اپنی طرف مصروف رکھ کر  اسے اندرون خانہ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کی حمایت و مدد سے روکا جائے؟ کیونکہ 3 جون کی شب

"Chief Justice Iftikhar Chaudhary Family Gate Scandal Trap Story Disclosed by Shaheen Sehbai"

کے عنوان سے ایک ٹی وی کیمرہ انٹر ویو "واشنگٹن بیٹ" نامی ویب سائٹ کے زریعے یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا۔ انٹرویو دیکھیں تو آپ کو انداذہ ہوگا کہ اس پروگرام کا اہتمام اس سکینڈل کو منظر عام پر لانے کے لئے کیا گیا تھا۔ یوں اتنا بڑا سکینڈل وقت سے پہلے ہی منظر عام ہر آگیا جس پر عاصمہ جہانگیر کو یقیناْ صدمہ پہنچا ہوگا کیونکہ سکینڈل کے منظر عام پر آنے سے اس کے وہ تمام مقاصد جو اس کو خفیہ رکھ کر حاصل کیئے جا سکتے  تھے وہ دم توڑ گئے۔ ویسے بھی گزشتہ ایک برس سے عاصمہ جہانگیر  اپنے جیسے دیگر بہت سے وکلاء ساتھیوں کی طرح چیف جسٹس افتخار چوہدری سے ہر گز خوش نہیں۔  5 جون کی پریس کانفرنس میں اس نے فوج کے ساتھ 17 ججوں کے خلاف بول کر اِس نے اپنے بغض باطن کا کر ہی دیا ہے۔ جس کے بعد عاصمہ جہانگیر کے پاک فوج کے خلاف الزامات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب چیف جسٹس کو چاہئے کہ وہ اپنے بیٹے کی طرح عاصمہ جہانگیر کی پریس کانفرنس کا بھی سو موٹو نوٹس لیں اور فوج پر الزامات کے پس پردہ مقاصد سے پردہ اٹھا کر انہیں عوام الناس کے سامنے لایا جائے۔ اگر واقعی کے الزامات میں صداقت ہے تو پھر منصوبہ سازوں کو سزا ضرور ملنی چاہئے۔۔۔

 

 

تحریر : خالد بیگ

Truth by Kbaigححھ


--

No comments:

Post a Comment