My Blog List

Friday, October 26, 2012

ملالہ کے قتل کا حکم دینے والے کو بھی امریکی سرپرستی حاصل ہے؟

ڈانا پریسٹ ایک مجاہد جو کہ آجکل طالبان کہلاتے ہیں کے ہمراہ


تحریر: خالد بیگ

بازی گری بھی کیا کمال فن ہےکہ کسی بھی بظاہر دکھائے جانے والےکرتب یا وقوعے کے جھوٹ پر مبنی ہونے کے باوجود دیکھنے والے اُس پر اِس انداز سے یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کا ادراک رکھنے والے بھی اپنی تمام تر سمجھ بوجھ کے باوجود جھوٹ کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی کمال پراپیگنڈہ کا بھی ہے کہ اس کے ماہر، بازیگرکی طرح اپنے خاص مقاصد کو کچھ اس انداز سے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ انتہائی سچا واقعہ جھوٹ اور  جھوٹ سچ دکھائی دیتا ہے۔

                        کچھ اس طرح کا واقعہ سوات سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی کمسن مگر انتہائی بہادر بیٹی ملالہ کے ساتھ بھی پیش آیا۔ اس پر یہ جانتے ہوئے قاتلانہ حملہ کیا گیا کہ وہ معصوم سی بچی نہ عالمی شاطرانہ چالوں کو سمجھتی ہے نہ ہی اسے سیاسی ضرورتوں یا مقاصد کے لئے دیئے جانے والےبڑے بڑے بیانات کا مفہوم معلوم ہے نہ ہی اس کی کِسی خاص گروہ، نظریئے یا افراد سے کوئی عناد یا دشمنی تھی۔ وہ تو صرف طالبان نما پاکستان و اسلام دشمن اس گروہ ہاتھوں پریشان تھی جنہوں نے سوات میں نہ صرف لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی تھی بلکہ بہت سی عمارتیں اس گروہ کے ہاتھوں زمیں بوس بھی ہو چکی تھیں۔ صرف یہی نہیں وہ کم عمر ہونے کا باوجود اس حقیقت سے بھی آگاہ ہو چکی تھی کہ سوات میں اسلام کے نفاذ پر دہشت کا ماحول پیدا کرنے والےجب اورجِس گھر میں چاہیں داخل ہو کر وہاں موجود جوان لڑکیوں اور عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالیں۔

                        یہی وہ عوامل تھے جو اس کے ذہن پر اثر انداز ہوئے اور اس نے سوات میں زنانہ تعلیمی اداروں کی تباہی کے روزانہ پیش آنے والے واقعات کو قلمبند کرنا شروع کر دیا، یا پھر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے سوات بھر میں گردش کرنے والی بازگشت کو اپنی ڈائری میں منتقل کرتی رہی۔ جِس سے کہیں بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ اس گروہ کو چیلنج کر رہی تھی جِس نے سوات کو سوات کے باسیوں کے لئے جہنم بنا ڈالا تھا۔ کہ اچانک ایک دن خبر آئی کہ اِس کی ڈائری کی بناء پر سکول سے واپس آتے ہوئے راستے میں اس پر جان لیوا حملہ کر دیا گیا۔

ملالہ یسفزئی

                        ملالہ پر قاتلانہ حملہ کی خبر جیسے ہی جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیلی اس پر ہر پاکستانی افسردہ اور اس معصوم کی زندگی کےلئے دعا گو تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر عالمی میڈیا پر اہمیت اختیار کر گئی اور ان مغربی حکمرانوں کے مذمتی بیانات بھی خبر کی زینت بننے لگے جِن کے ہاتھ ہی نہیں پورا جسم اور روح عراق، افغانستان، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کے خون ناحق سے لتھڑے ہوئے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملالہ پر قاتلانہ حملہ کے خلاف احتجاج نے پاکستان میں اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف مہم کی صورت اختیار کرلی۔ ٹیلی ویژن پر چلنے والے بعض "ٹاک شوز" کے مباحثوں سے یوں ظاہر ہونے لگاکہ جیسے پاکستان میں اسلام کی بات کرنے والا یا مسجد جانے والا ہر شخص ملالہ پر حملے میں ملوث ہے، اس بحث مباحثے کے درمیان پاکستانی قوم جو ملالہ پر حملے کے خلاف احتجاج میں ایک تھی مگر اس وقت دو حصوں میں بٹ گئے جب اس گھنائونے فعل کی آڑ میں مادر پدر آزاد مذہب بیزار طبقے نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسلام کا نام لینے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ساتھ ہی پاک فوج سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ شروع کر دیا (انداز بلکل وہی تھا جو اس طبقے نے لال مسجد کے خلاف آپریشن کے لئے اختیار کیا تھا۔ جس میں ہمارے ٹی وی چینلز کے خود کو مفکر اعظم سمجھنے والے دور حاضر کے ارسطو نما انیکر پرسن پیش پیش تھے اور جب آپریشن ہوا تو یہی اینکر لال مسجد والوں کو مظلوم اور فوج کو ان کا قاتل قرار دینے والوں میں بھی سب سے آگے نظر آئے)۔ یہ سوچے بغیر کہ ملک میں جمہوری نظام ہے اور فوج پارلیمنٹ کے بغیر شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کرے گی۔ امریکی حکومت جو پہلے ہی شمالی وزیرستان میں کی خواہاں تھی اس نے بھی اپنے پروردہ پاکستان کے لبرل طبقے کی ہاں میں ہاں ملائی اور آپریشن کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا۔

ملالہ کے قتل کا حکم دینے والا مولوی فضل اللہ

                        تاہم صورتحال اس وقت عجیب شکل اختیار کر گئی جب 18 اکتوبر کو "واشنگٹن پوسٹ" میں امریکہ کی معروف صحافی ڈانا پریسٹ نے ملالہ کے قتل کا حکم دینے والے مولوی فضل اللہ (جسے وہ Mullah Radio   کے نام سے یاد کرتی ہے) کے حوالے سے


کے نام سے سٹوری لکھ کر معاملے کو نیا رخ دے دیا۔ Dana نے بتایا کہ فضل اللہ جو کہ سوات میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا تین برص قبل وہاں پاک فوج کے کامیاب آپریشن کے بعد فرار ہو کر افغانستان میں پناہ گزین ہوا۔ اب وہیں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کو کنٹرول کر رہا ہے۔ Dana کے بقول مولوی فضل اللہ اور اس کے دیگر ہزاروں پیروکار افغانستان کے صوبہ کنڑ اور نورستان میں Enjoy کر رہے ہیں جنہیں وہاں کے گورنر کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اور افغان حکومت اس امر سے لاعلم نہیں ہو سکتی کہ مولوی فضل اللہ نے وہاں تربیتی کیمپ کر رکھے ہیں۔ Dana کے مضمون میں Institute for the study of warکے Senior Research Analyst  "Jeff Dressler" اور Long War Journalکے ایڈیٹر Bill Roggio کا ذکر بھی موجود ہے، جس کے بقول وہ لکھتی ہے کہ فضل اللہ نیٹو سمیت امریکہ کے سیکورٹی کے تمام اداروں کو مطلوب ہے تو پھر ISAF یا نیٹو فورسز اس کو گرفتار کیوں نہیں کرتیں؟ اصولاً تو ملالہ کے غم میں نڈھال امریکی و برطانوی حکمرانوں کو فضل اللہ کے خلاف پہلی فرصت میں کاروائی کرنی چاہئے تھی اور مغربی سول سوسائٹی کا مطالبی بھی یہی ہونا چاہئے تھا کہ فضل اللہ کو گرفتار کیا جائے جو ملالہ کا اصل مجرم ہے اور انجلینا جولی کو بھی میڈونا کے ساتھ یہی مطالبہ کرنا چاہئے تھا۔ مگر اس پر سب خاموش ہیں۔


ملالہ برمنگھم کے ہسپتال میں زیر علاج

                        اب اگر دیکھا جائے تو امریکی خواہش یا حکم کی وجہ سے ملالہ برطانیہ میں زیر علاج ہے، انجلینا جولی کے علاوہ امریکی سول سوسائٹی کے دیگر لوگ ملالہ کو امن کا نوبل انعام دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اقام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون بھی ملالہ کے لئے افسردہ ہیں، برطانیہ کے سابق وزیراعظم گورڈن برائون ملالہ پر حملے کی یاد میں 10 نومبر کو مستقل یادگار کا درجہ دینے کے لئے اس تاریخ کو عالمی سطح پر تہوار منانے کا اعلان کر رہے ہیں تو دوسری طرف ملالہ کے قتل کا حکم دینے والا مولوی فضل اللہ بھی امریکی رضامندی یا قصداً چشم پوشی کی وجہ سے افغانستان میں پناہ گزین ہے جِسے تربیت و اسلحہ کی فراہمی اور مالی معاونت Afghan Intelligenceکے National Directorate of Security (NDS) اور RAW کی مکمل مدد حاصل ہے۔ جو فضل اللہ کو فاٹا اور دیگر پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مذہب بیزار طبقے کو ابھی تک یہ توفیق نہیں ہوئِی کہ وا ڈانا پریسٹ کی طرح امریکی حکومت یا صدر اوبامہ سے مولوی فضل اللہ کے ٹھکانے پر ڈرون حملے کا مطالبہ کر لے۔ تو پھر قارئین یہ سب بازی گری نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ کیا کہتے ہیں اس شعبدہ بازی کے حوالے سے؟

To read this post in English please visit