My Blog List

Wednesday, July 20, 2022

موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے گرداب میں پھنستا پاکستان


    کراچی سے لے کرپشاور تک ' گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے تمام صو.  بوں میں کوئی ایک شہر بھی ایسا نہیں جہاں بارشوں نے کم یا زیادہ عوام الناس کے لیے مسائل پید انہ کیے ہوں۔ گزشتہ چند یوم میں برسنے والی بارشوں سے متعلق اخبارات و ٹیلی ویژن چینلوں پر آنے والی خبروں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ویڈیو کلپس سے ایک بات ضرور سامنے آئی ہے کہ ہر جگہ نکاسی آب کے حوالے سے انتظامیہ بے بسی کی تصوری بنی دکھائی دی۔ اس تمام صورتحال کو ملک میں جاری سیاسی انتشار کے تناظر میں حکومتوں کی ناکامیوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو کسی حدتک تو درست ہوسکتا ہے مکمل طور پر نہیں بارشیں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں لیکن اب حالیہ برسوں میں اس میں ہونے والا اضافہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں سے متعلق پیشین گویوں کا سلسلہ 1999 ء سے جاری ہے ،جب پہلی بار اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا میں موسمیاتی تبدیلیو ں وار اس کی زد میں آنے والے ممالک کی فہرست جاری کی گئی تھی اور ان موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب دنیا میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو قرار دیا گیاتھا۔ جس کا بنیادی سبب تیزی سے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کو قرار دیا گیا ۔جیسے پیدا کرنے میں وہ تمام ترقی یافتہ ممالک شامل تھے جن کی صنعتیں دن رات انسانی ضروریات کے لیے مختلف طرح کی مصنوعات سے زیادہ مقدار میں دھواں فضا میں بھیج رہے تھے ۔2010 ء میں موسمیاتی تبدیلی کی زد میں آنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 5 واں بتایا گیا، وجہ یہ نہیں تھی کہ پاکستان کی فیکٹریاں زیادہ دھواں اگل رہی تھیں بلکہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر پاکستان کی حدود میں موجود گلیشیئرزکو اسکی بڑی وجہ بتایا گیا جن کے پگھلنے کی رفتار میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔ دیگر ممالک جہاں گلیشیئرز موجود ہیں ان ممالک کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
    عالمی سطح پر دنیا بھرکے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے 2010 ء میں موسمیات کے ماہرین نے آگاہ کردیا تھا کہ سردیاں ہوں یا گرمیاں ان میں شدت بڑھتی چلی جائے گی ۔ان تبدیلیوں کی بدولت خشک سالی بڑھے گی اور طوفانی قسم کی بارشیں برسیں گی۔ سیلاب آئیں گے، وہ ممالک جن کا انحصار زراعت پر ہے زیادہ متاثر ہونگے۔ انہیں پانی کی قلت کا سامنا ہوگا گلیشیئرز کے اندر چھپی جھیلوں کے پھٹنے کی وجہ سے پانی کا تیز بہائوکی زد میں آنے والی آبادیوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔ زمین کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا۔ جوکہ برسات کے موسم میں شدید ترین حبس کا سبب بنے گا ۔اس سے زراعت متاثر ہوگی،اجناس کی پیداوار میں کمی آئے گی۔ انسانوں اور لائیو اسٹاک میں بیماریاں بڑھیں گی۔ اس سے بچائو کیلئے ایک تو پاکستان میں پانی کے ذخائر میں اضافے پر زور دیا گیا تاکہ خشک سالی کے وقت زراعت کو تحفظ فراہم کیا جاسکے اور درجہ حرارت کو قابو میں رکھنے کے لیے جنگلات میں جنگلی بنیادوں پر اضافے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو کہ رقبے کے تناسب سے خطرناک حد تک کم ہیں اور اس میں مزید کمی ہو رہی ہے۔ خاص کر پہاڑی علاقوں میں جنگلات میں اضافے کی بات کی گئی تاکہ بارشوں کے موسم میں لینڈ سلائڈنگ سے بچنے اور سردیوں کے موسم میں برفباری کی شدت سے بچا جاسکے۔
    گزشتہ سردیوں میں مری کے پہاڑوں پرجس قدر برفباری ہوئی یہ اس موسمی تبدیلی کا نتیجہ ہے جس کے بارے میں موسمیات و ماحولیات کے عالمی ماہرین عرصہ دراز سے پوری دنیا اور پاکستان کو آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ ہر موسم توقع سے زیادہ شدت کے ساتھ نازل ہوگا مری میں برفانی طوفان اچانک اور اس قدر غیر متوقع تھا جس میں بہت سے افراد اپنے دوستوں و اہلخانہ کے ساتھ زندگی کی بازی ہار گئے یار ات بھر آباد علاقے میں ہونے کے باوجود امدا د کو ترستے رہے ۔ جسے انتظامی ناکامی قرار دے کر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جاتی رہی ۔ کچھ ایسی ہی صو رت حال کا سامنا چند ماہ قبل تھرو چولستان میںخشک سالی اور پانی کی کمی وجہ سے وہاںکی آبادیوں کو کرنا پڑا ۔ نہ ہی مارچ و اپریل کے مہینوں میں شہری علاقوں میں گرمی کی شدت اور لو لگنے سے لوگوں کے بیمار ہونے کی نوبت کبھی اس سے قبل دیکھنے کو ملی ۔ملک بھر میں حالیہ بارشوں سے ہونے والے نقصانات کو ہی دیکھ لیں تو بلوچستان میں 60سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ ان میںاکثریت ان افراد کی تھی جو اچانک آنے والے سیلابی ریلو ں میںبہہ گئے ۔ 700مکانات منہدم اور سینکڑوں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں بپھرے ہوئے برساتی ریلوں کی نذرہوگئیں ۔ کراچی میں بارش کے پانی کے جس قدر نقصان پہنچایا ہے اس کے اثرات ابھی تک ہر سو پھیلے ہوئے ہیں۔ اندرون سندھ کے علاوہ کے پی کے و شمالی علاقوں میں بھی برسات کی تباہ کاریاں کم نہیں ہیں۔ یوں ملک بھر میں صرف برسات کی وجہ سے ہونے والی اموات 150سے زیادہ رپورٹ ہوچکی ہیں۔ جوکہ 2020میں برسات کے موسم میں ہونے والی تباہی اور اموات سے بہت زیادہ نہیں تو کم بھی ہرگز نہیں ہیں۔ جانی نقصان کے علاوہ املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے تو احساس ہوگا کہ جو ملک اپنے انتظامی ضروریات پوری کرنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کیلئے ناگ رگڑتا ہے کیا وہ ہر سال اتنے بڑے پیمانے پر سڑکوں و پلوں اور دیگر رپورٹ نہ ہونے والے نقصانات کا متحمل ہوسکتا ہے؟
    تو پھر ہماری سیاسی اشرافیہ کو اس بات کا ادراک کیوں نہیں کہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچائو کی ذمہ داری کسی ایک فردیا سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ ہر شہری پر یکساں عائد ہوتی ہے۔ اگر برسر اقتدار جماعت اس زعم میںہوکہ وہ تن تنہا اس کے تدارک کی استعداد رکھتی ہے تو یہ بھی خام خیالی ہے کیونکہ اس میں کامیابی تمام مکتبہ فکر کی عملی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ اور پھر ایسا ملک جہاں قومی نوعیت کے منصوبوں کی بجائے ایسے غیر پیداواری منصوبوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہو جنہیں برسراقتدار جماعت اپنے حکومتی عرصہ کے اختتام سے قبل مکمل کر کے ان کی بنیاد پر آئندہ کیلئے انتخابی جیت کو یقینی بنانا ضرور سمجھتی ہو۔ انہیں وجوہات کی بناپر ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں یہ ااحساس کبھی بیدار ہی نہیں ہوسکا کہ پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی کے ساتھ نیچے جارہی ہے ۔ آبادی میں اضافے کیلئے خوراک کی ضروریات کا پورا کرنا وافر پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ ہرسال برسات کا پانی ڈیم یا پانی کے بڑے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے سمندر بُرد ہو جاتا ہے لیکن سمندر تک پہنچنے سے پہلے بستیوں کی بستیاں اجاڑ جاتا ہے ۔ پاکستان کو قائم ہوئے 75برس ہوگئے ۔ ہم منگلہ و تربیلہ کے بعد تیسرے ڈیم کالا باغ پر سیاست چمکانے میں ہی پھنس کر رہ گئے ۔ اس کے برعکس قیام پاکستان سے ایک روز بعد آزاد ہونے والا ملک بھارت اب تک چھوٹے بڑے 4710ڈیمز تعمیر کر چکا ہے جبکہ 390زیر تعمیر ہیں۔ ہم پاکستان میں جب تک ملک و قوم کیلئے یکسو ہوکرطویل المدتی پانی ذخیرہ کر نے کیلئے نئے ڈیمز تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے علاوہ کالاباغ ڈیم منصوبے پر سیاست چمکا نے کا طریقہ ترک نہیں کریں گے پاکستان کے شہر بارشوں میں تباہ حال بنی رہیں گے اور موسمی تبدیلی کے اثرات ہماری معیشت و زندگیوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔