My Blog List

Sunday, September 16, 2012

پاک فوج میں خود احتسابی کا نظام اور این-ایل-سی سکینڈل...



پاک فوج میں خود احتسابی کا نظام اور این-ایل-سی سکینڈل

تحریر : خالد بیگ
کیپٹن ارشد حیدرآباد میں بطور سٹاف آفیسر ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ اس دوران اسکی وہیں شادی ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد وہ واپس توپ خانہ (آرٹلری) کی یونٹ میں آزاد کشمیر پوسٹ ہو گیا۔ شومی اتفاق کچھ عرصہ بعد ہی اس کی یونٹ حیدرآباد پوسٹ ہو گئی جہاں اندرون سندھ ڈکیتوں کی سرکوبی کیلئے آپریشن کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ یہ 1992 کا دور تھا، کیپٹن ارشد میجر کے رینک پر پروموٹ ہو چکا تھا۔ جب ڈکیتوں کے خلاف آپریشن کی ذمہ داری اسکی یونٹ کو سونپی گئی۔ اس دوران ایک جگہ ڈکیتوں کی موجودگی کی اطلاع پر میجر ارشد اپنے سپاہیوں اور پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ موقعہ پر پہنچے جہاں شدید فائرنگ و مقابلے کے بعد درجن بھر ڈکیت مار دیئے گئے۔ دوسرے روز اخبار ات ڈکیتوں کےخلاف کامیاب آپریشن کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ ڈکیتوں کے پس منظر اور ان سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی تصویری شکل میں اخبارات کے صفحات پر نمایاں تھے۔ چند روز بعد حیدرآباد کے ایک اخبار نے خبر شائع کی کہ مرنے والے ڈکیت نہیں بلکہ اندرون سندھ کے زمیندار تھے جنہیں سازش کے ذریعے قتل کرا دیا گیا۔

معاملہ پولیس یا سول انتظامیہ کا ہوتا تو شاید کچھ بھی نہ ہوتا لیکن چونکہ آُریشن میں فوج براہراست ملوث تھی، جس کے نتیجے میں خبر کے شائع ہوتے ہی فوج کا خود احتسابی نظام حرکت میں آگیا اور تحقیقات کے نتیجہ میں جو حقائق سامنے آئے وہ بلکل مختلف تھے۔ جس کا مختصر احوال یہ ہے کہہ ڈکیتوں کے نام پر مارے گئے افراد کا زمین پر قبضہ کے حوالےسے میجر ارشد کے سسرالیوں سے تنازعہ چل رہا تھا۔ میجر ارشد کے سسرالیوں نے فوج کے ڈکیتوں کے خلاف آپریشن کی آڑ میں اپنے مخالفین کو قتل کرانے کا منصوبہ بنایا جس کا مشورہ وہاں تعینات ان کے ایک دوست سینئر پولیس افسر نے دیا تھا۔

بس پھر کیا تھا پولیس کے اعلٰی حکام نے فوج کو ایک مقام پر چھپے ہوئے ڈکیتوں کی اطلاع دی جو اکٹھے ہو کر بڑی سنگین واردات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ حالانکہ انہیں میجر ارشد کے سسرالی وزیروں نے پنچایت کے لئے بلوایا تھا۔ تحقیقات مکمل ہوتے ہی میجر ارشد اور اس کے تین ساتھی فوجیوں کو ملٹری پولیس نے حراست میں لے لیا، ان کا کورٹ مارشل ہوا اور سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔ جس پر بعد ازاں عمل درآمد بھی ہو گیا کیونکہ فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز جنجوعہ نے بھی ان کی سزائے موت کی توثیق کر دی تھی۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ میجر ارشد کے سسرالی رشتہ داروں یا پولیس کے وہ ذمہ داران جنہوں نے یہ قتل کا منصوبہ بنایا تھا انہیں کسی نے نہیں پوچھا۔ صرف یہی نہیں تحقیقات مکمل ہوتے ہی 18 ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈر میجر جنرل سلیم اسحاق کو فوری طور پر حیدرآباد سے تبدیل کر دیا گیا اور ایک بریگیڈیئر صاحب گھر بھیج دیئے گئے۔

 یہ تو صرف ایک واقعہ ہے جواپنی نوعیت کی وجہ سے منظر عام پر آگیا۔ لیکن فوج میں بطور ادارہ موجود خوداحتسابی کے پربوط نظام کی بدولت نہ جانے کتنے افسران نوکری سے فارغ کر دیئے گئے یا پھر انتہائی پروفیشنل اور شاندار پروفائل کے باوجود ترقی کی دوڑ سے باہر نکال دیئے گئے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فوج میں سب فرشتے ہیں یا کرپشن کے مرتکب نہیں ہوتے لیکن فوج میں شمولیت اختیار کرنے کرنے والےہر نوجوان افسر کا اصل خواب اس کا مستقبل یا کیریئر ہوتا ہے جس کو وہ شفاف اور صاف رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ پھر ضابطے یا قانون بنائے ہی اسی لئے جاتے ہیں کہ احتساب کی تلوار سر پر لٹکتی دیکھ کر انسان اپنے پر طاری کسی کمزور لمحے میں بھی احتساب کے خوف سے خود کو بد عنوانی یا ہر اس کام سے دور رکھے جو ڈسپلن کی خلاف ورزی کے دائرے میں آتا ہو۔ لیکن ملک کے عمومی سیاسی حالات اور ملک کی نظریاتی شناخت کے علاوہ آزادی کے بعد سے پاکستان کے حصے میں آنے والےخطرات کی بدولت فوج کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے عوام الناس سمجھتے ہیں کہ فوج یا فوجی افسر مقدس گائے ہے جس کا نہ تو احتساب ہوتا ہے نہ کوئی ان سے جواب طلب کر سکتا ہے۔ فوج اقتدار میں کیوں آتی ہے یہ ایک الگ بحث ہےلیکن بطور ادارہ اگر پاکستانی فوج میں خود احتسابی کا نظام نہ ہوتا تو نہ ایٹمی پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچتا اور نہ ہی اس انداز سے محفوظ و مستحکم ہوتا کہ باوجود بھیانک عالمی سازشوں کے ابھی تک قائم و دائم ہے اور اللہ کے حکم سے آیئندہ بھی رہے گا۔    

این ایل سی میں گھپلوں کی مثال ہی لے لیجئے، پاکستان میں3 سابق اعلٰی اہلکاروں کا جس انداز سے کورٹ مارشل ہونے جا رہا ہے۔ اسے ہمارے کچھ اینکر حضرات وخواتین اور ہر حالت میں فوج کی مخالفت اور اسے بدنام کرنے پر کمر بستہ رہنے والے کچھ سیاستدان حضرات اسے بھی تنقید کا نشانہ بنا کر فوج کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تینوں جرنیلوں کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے جو روایتی اداز سے ان کے خلاف تحقیقات کر ے اور پھر عدالتوں میں سماعت کا نہ ختم ہونے والاایک ایسا سلسلہ شروع جس کی آر میں بطور ادارہ فوج کو بدنام کیا جا سکے۔ وہ سیاتدان جو اپنی سامنے نظر آنے والی کرپشن کو انتقام قرار دے کر عوامی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے کے عادی ہیں یا جن کا بال بال کرپشن و اخلاقی جرائم کے کیچڑ میں لت پت ہے ان کا خیال ہے ان تینوں جرنیلوں کے عدالتی ٹرائل کو میڈیا ٹرائل کی شکل دے کر دنیا کی توجہ ان کی لوٹ مار سے ہٹائی جا سکتی ہے۔ اس لئے وہ تینوں جرنیلوں کو کورٹ مارشل کی ضرورت کے لئے بطور جرنیل بحال کئے جانے پر سیخ پا ہیں۔ حالانکہ انہیں اس موقع پر اپنے انتہائی قابل قدر فوجی ادارے کی پیشہ ورانہ امور کی قدر کرنی چاہئے کہ ادارے کا خود احتسابی کا نظام اس قابل ہے کہ اپنے جرنیلوں کو کٹہرے میں لا سکے اور ایسا فوج کے ایک ایکٹ
'Pakistan army act section 92 in conjunction with section 40'
کے تحت کیا جارہا ہے جس کے تحت ملزمان کے کورٹ مارشل کےدوران حاضر سروس ہونا ضروری ہے۔ اور یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے، دنیا کے بیشتر ممالک برطانیہ و بھارت میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں جس میں فوجی افسر کو کسی بڑے جرم کے ارتکاب کی بدولت ریٹائرمنٹ کے دس سال بعد بھی کورٹ مارشل کے لئے پہلے بحال کیا گیا۔

لیفٹیننٹ جنرل خالد منیر، لیفٹیننَ جنرل افضل مظفر اور میجر جنرل ریٹائرڈ خالد ظہیر کے کورٹ مارشل کا فیصلہ کوئی ہوا میں نہیں کیا گیا۔ ان پر عوامی پیسہ کو خرد برد نہیں بلکہ ایسی جگہ استعمال کرنے کے خلاف پہلے انکوائری کرائی گئی جس کی رپورٹ کی روشنی میں ان تینوں ریٹائرد جرنیلوں کے کورٹ مارشل کا فیصلہ ہوا۔ اور یہ انکوائری فوج کے ایی مایہ ناز افسر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی سے کرائی گئی جو گزشتہ برس بہاولپور میں ریٹائر ہوئے۔ لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد حالانہ ملزمان سے جونیئر تھے لیکن ان کی ایمانداری کو پیش نظر رکھتے ہوئے آرمی چیف نے تینوں ملزمان کی انکوائری انہیں سونپ دی۔ جسے جنرل نعیم خالد نے طے شدہ وقت میں مکمل کر کے رپورٹ جمع کرا دی یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی انتہائی ضروری ہے کہ این ایل سی فراڈ کیس میں تین جرنیلوں کے ساتھ چند سول افسران بھی ملوث پائے گئے ہیں انہیں کی وجہ سے انکوائری مکمل ہونے کا باوجود کورٹ مارشل کی کاروائی شروع کرنے میں تاخیر ہوئی۔ ورنہ فوج کے بارے میں ہمہ وقت غلط فہمیاں پھیلانے والے اور فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والے ہمارے دانشور حضرات بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ فوج میں انکوائری دبانے یا ملزمان کو بچانے کا سرے سے رجحان ہی نہیں ہے۔

یہاں ملتان سے ایک واقعہ کو بطور مثال پیش کرنا چاہتا ہوں، یہ 2002 کی بات ہے ایک اعلٰی سول افسر کے خلاف فوج کے تین افسران انکوائری کر رہے تھے۔ لیکن دوران انکوائری (جسے مانیٹر کیا جا رہا تھا) احساس ہوا کہ انکوائری کمیٹی کے اندر سے اس بد عنوان سول افسر کی مدد کی جا رہی تھی جس کی کرپشن کے قصے ملتان میں زبان زد عام تھے۔ آخر ایک میجر قابو آگیا جو رشوت یا کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ اپنے رشتہ داروں کے دبائو مِیں آکر ملزم کی مدد کر رہا تھا۔ بس پھر کیا تھا میجر کے خلاف فوری انکوائری کا حکم ہوا۔ الزام ثابت ہونے پر میجر صاحب کو تو فوج سے جبری ریٹائرمنٹ کی فوری سزا مل گئی تاہم وہ سول افسر آج بھی اسی طرح بعد از ریٹائرمنٹ کنٹریکٹ پر اپنے عہدے پر فائز ہے۔

یہاں آخر میں اپنے دانشور ساتھیوں سے درخواست کروں گا کہ تینوں ریٹائرڈ جرنیلوں کی ان کے رینک پر بحالی کو کوئی نیا رنگ دینے کی بجائے اپنے فوجی ادارے کو سراہیں کہ ملک میں جہاں اعلٰی عدالتی احکامات کو تسلیم کرنے کی بجائے ہوا میں اڑایا جاتا ہو لیکن فوج کا احتسابی نظام مکمل طور پر فعال بغیر کسی سفارش یا دبائو کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور عوام کو احساس دلایا جائے کہ تینوں جرنیلوں کو نہ تو کہیں تعینات کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی بھی طرح کی ڈیوٹی سونپی گئی ہے۔ ان کی ان کے رینک پر بحالی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے اور قانون کی مدد کے لئے ضروری ہے۔ جس کے لئے فوج بطور ادارہ اور فوجی قیادت خراج تحسین کی مستحق ہے۔
--