My Blog List

Monday, January 19, 2015

جنوبی پنجاب کی تعلیمی ترقی میں اہم سنگ میل! سی ایم ایچ ملتان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا قیام

مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے یورپ کا دوہرا معیار


خالد بیگ

پیرس میں رسول اکرمؐ کی شان میں گستاخانہ خاکوں کی بار بار اشاعت سے شہرت پانے والے جریدے ’’چارلی ہیبڈو‘‘ پر حملے اور اس کے نتیجے میں ہفت روزہ کے ایڈیٹر‘ کارٹونسٹ اور ادارتی عملہ سمیت مارے جانے والے درجن بھر افراد کے قتل کی تمام اسلامی ممالک میں اس بنا پر مذمت کی گئی کہ اسلام کسی گروہ یا فرد واحد کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ عمل تو ویسے ہی اسلام کی تعلیم و روح کے منافی ہے لیکن اس وقوعے کے بعد یورپ میں اسلام مخالف ریلیوں اور اسلام کے بارے میں وسطی و مغربی یورپ کے بعض ممالک کی پارلیمنٹ کے منتخب عوامی نمائندگان کی طرف سے ٹیلی ویژن چینلوں پر دئے جانے والے ریمارکس نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ نشاندہی کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان ممالک میں آباد مسلمان اقلیت کو کس طرح کے مسائل و مشکلات درپیش ہونگے۔ چارلی ہیبڈو پر حملہ مسلسل ایک ہفتہ تک مغربی میڈیا پر چھایا رہا۔ گو حملے کے دوسرے وز سے ہی فرانس‘ جرمنی و دیگر یورپی ممالک میں مساجد پر حملے شروع ہو گئے تھے لیکن مغربی الیکٹرانک میڈیا نے اس طرح کی خبروں کو نشر کرنے سے اجتناب کیا۔ تاہم گیارہ جنوری کو ہفت روزہ اور حملے کا شکار ہونے والوں سے اظہار یکجہتی کے لئے حکومتی سطح پر پیرس میں نکالی گئی ریلی کے بعد جب مغربی ممالک میں اسلام مخالف جذبات میں مزید شدت آئی اور لوگ کھل کر اسلام کے خلاف بولنے لگے‘ جرمنی میں اسلام کے خلاف ریلی نکلی اور ریلی کے شرکا نے اسلام مخالف جذبات کا اظہار کیا تو مساجد پر حملوں کی خبریں بھی بی بی سی‘ ڈی ڈبلیو اور سی این این پر نشر ہونے لگیں۔ تاہم اس ساری صورتحال کا انتہائی تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ عالمی سطح پر حملہ آوروں کی مذہب اور اپنے لئے پذیرائی دیکھتے ہوئے ’’چارلی ہیبڈو‘‘ نے اپنی اسلام دشمنی قائم رکھی اور آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں جریدے کی 30 لاکھ کاپیاں فروخت کے لئے بازار میں بھیجی جا چکی ہیں اور مزید 20 لاکھ کی چھپائی جاری ہے۔ جریدے نے توہین آمیز خاکے پھر سے شائع کرنے کا فخریہ انداز سے اعلان کیا ہے جس کے خلاف یقیناً پوری اسلامی دنیا سراپا احتجاج ہوگی لیکن ان مسلمان سربراہان مملکت و دیگر مسلمانوں کا کیا ہو گا جو ’’چارلی ہیبڈو‘‘ سے اظہار یکجہتی اور دہشت گردی کی مذمت کے لئے گیارہ جنوری کو سرکاری ریلی میں شرکت کے لئے پیرس پہنچے۔ وہاں انہوں نے ریلی کے شرکاء کے ساتھ یک زبان ہو کر نعرے لگائے کہ ’’ہاں میں چارلی ہوں‘‘؟ حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ مغربی میڈیا فرانسیسی جریدے پر حملے کو اسلام بمقابلہ یورپ کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے ان عوامل کو موضوع بناتا جس کے بارے میں 7 جنوری کو وقوعے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترکی نے واقع کی نشاندہی کی تھی کہ یورپ ’’اسلامو فوبیا‘‘ پر قابو پائے‘‘ ترکی نے درست کہا کہ وہ ہر طرح کی دہشت گردی کا مخالف ہے مگر یورپ کو بھی بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور نسل پرستی پر قابو پانا چاہئے‘ کیونکہ گزشتہ چند برسوں سے فرانس میں مسلمان خواتین کے لئے سر ڈھانپنے کو نہ صرف تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ حکومت کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے۔ 
توہین آمیز خاکوں (جنہیں اشاعتی دہشت گردی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا) کو یورپ آزادی اظہار کا نام دے کر مسلمانوں کو رواداری اور درگزر کا درس تو دے رہا ہے لیکن آزادی اظہار اور انسانی حقوق کا علمبردار یورپ دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ مسلمان آبادی کے مذہبی جذبات کا احترام کرنے کو تیار نہیں جس کا نصف برصغیر میں آباد ہے۔ بھارت جہاں راشٹریہ سیوک سنگھ اور بی جے پی کا اتحاد ایک طرف ہندو انتہا پسندی کو بھارت کی حقیقی شناخت قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو جبری طور پر اسلام چھوڑنے یا بھارت چھوڑنے کی دھمکیاں دے رہا ہے تو ساتھ ہی اس کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ دنیا کے سامنے پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرے ‘ بھارتی منصوبے کو مغربی میڈیا کی بھرپور مدد و معاونت بھی حاصل ہے جو دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کی واردات ہو جائے پاکستان کا ذکر کرنے سے نہیں چوکتے۔ اب جب ’’چارلی ہیبڈو‘‘ کی حالیہ جسارت کا پاکستان میں عوامی سطح پر ردعمل ہو گا تو آزادی اظہار کے نام لیوا پاکستان میں احتجاج کو انتہا پسندی قرار دینے میں دیر نہیں لگائینگے۔ تو کیا بھارتی اسلام و پاکستان دشمنی اور مغربی منافقانہ طرزعمل کے خوف سے پاکستانیوں کو چارلی ہیبڈو کی طرف سے حضرت نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی پر خاموش رہنا چاہئے؟ ہرگز نہیں۔ پاکستان میں ہر سطح پر فرانسیسی جریدے کے خلاف احتجاج ہم سب پر فرض ہے۔ بھارت سے واپسی پر پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی وزیر خارجہ کو لشکر طیبہ سمیت ان تمام مذہبی جماعتوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی درکار ہے جن سے اب صرف بھارت کو شکایت ہے حالانکہ بھارت کے پاس ان جماعتوں کے خلاف بھارت میں کسی بھی کارروائی میں ملوث ہونے کا ایک بھی ثبوت نہیں لیکن محظ پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی بنا پر بھارت و امریکہ اپنا دباؤ قائم کئے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس بھارتی فوج کی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر نہ تھمنے والی بلااشتعال فائرنگ علاوہ ازیں براستہ افغانستان بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے تمام تر ثبوتوں کے باوجود امریکہ بھارت کو لگام دینے کو تیار نہیں‘ دراصل یہی مغربی منافقانہ طرزعمل سے جس نے کئی عشروں سے مسلمان ممالک کے لئے جینا حرام بنا رکھا ہے۔ 

پیرس میں دہشت گردوں کے ہاتھوں 17 افراد کا مارے جانا آگے چل کر ’’نائن الیون‘‘ کی طرح مسلمانوں کے لئے نہ جانے کس طرح کی مشکلات لائے گا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ تب تک یقیناً چارلی ہیبڈو پر ہونے والے حملے کے اصل رموز بھی منظر عام پر آ چکے ہونگے جس کے بارے میں بہت سے سوال حل طلب ہیں کہ داعش والے اسے اپنا کارنامہ قرار دے رہے ہیں تو یمن سے القاعدہ اپنا‘ جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کارروائی سے القاعدہ کا کوئی تعلق نہیں۔ ساتھ ہی امریکی میڈیا خبر دے رہا ہے کہ حملے میں ملوث اشرف و سید برادران طویل عرسے سے فرانسیسی خفیہ اداروں سے رابطے میں تھے۔ پھر جس انداز سے اردگرد کی عمارتوں کی مختلف کھڑکیوں سے حملہ آوروں کی کارروائی کو عکس بند کیا گیا کہ جیسے فلم بنانے والے پہلے سے تیار تھے۔ ایک حملہ آور کا ویران سڑک پر ’’اﷲ اکبر‘‘ کا نعرہ لگانا ‘ فرار ہوتے ہوئے ایک دہشت گرد کا موقع پر اپنی شناخت چھوڑ کر جانا جس کے ذریعے پولیس کو شریف کوچی اور سید کوچی تک پہنچنے میں مدد ملی۔ پھر یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ دہشت گرد 15 منٹ تک چارلی ہیبڈو کی عمارت اور اس کے باہر موجود رہے تو پیرس کی پولیس نے وہیں ان کا کام تمام کیوں نہیں کیا۔ حیات نامی خاتون کو پہلے حملے میں ملوث بعد ازاں یرغمالیوں کی رہائی کی آڑ میں فرار اور پھر اس کے حملے کی کارروائی سے ایک ہفتہ قبل براستہ ترکی ‘ شام پہنچنے کی حیران کن تھیوری۔ کوچی برادران کی مارے جانے کے بعد لاشیں منظر عام پر لانے اور دنیا کو دکھانے میں کیا قباحت تھی۔ حملے میں ایک مسلمان بھی مارا گیا لیکن عالمی میڈیا پر یہودیوں کا ہی سوگ کیوں چھایا رہا۔ حملہ آوروں کو نقاب پہن کر کارروائی کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ وہ جانتے تھے کہ فرانس میں انہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی‘ حملہ آوروں نے کارروائی کے بعد محفوظ پناہ گاہ تک پہنچنے کا بندوبست اپنے منصوبے میں شامل کیوں نہیں کیا۔ 2 دسمبر کو فرانسیسی پارلیمنٹ کا فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں ووٹ دینا’’نیویارک ٹائمز‘‘ کا اسے مذکورہ سرخی Symbolic vote in France backs Palestinian state کے ساتھ شائع کرنا۔ فرانسیسی سربراہ کا روس جانا اور وہاں پہنچ کر یوکرائن کے مسئلہ پر امریکہ کی طرف سے روس پر لگائی گئی پابندیوں کے خاتمہ کا مطالبہ کرنا پھر چارلی ہیبڈو کی حملہ سے کچھ عرصہ پہلے کی اشاعت میں یہ طنزیہ پیغام
 "No attacks yet in France". Wait' we have until the end of January to send you a new year wishes

کارٹون کی شکل میں شائع کرنے والے کارٹونسٹ کا کہیں بھی ذکر نہ آنا بہت سے شکوک کو جنم دیتا ہے۔ لیکن انتہا پسندی کا الزام پاکستان پر ہے۔