My Blog List

Thursday, June 7, 2012

"عاصمہ جہانگیر کی فوج پر الزام تراشی" آخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔۔۔


 

فوج عاصمہ جہانگیر کو کیوں قتل کرائے گی؟ یہ سوال عاصمہ جہانگیر کی پانچ جون کو ہونے والی ہنگامی پریس کانفرنس کے بعد اکثر لوگ پوچھ رہے ہیں۔ کیونکہ پہلی بار ملک میں کسی وکیل یا اہم شہری نے پاک فوج پر کی اعلیٰ قیادت پر  اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے جیسا سنگین الزام لگایا ہے۔ لیکن خدشات یا معاملات کی روشنی میں خاتون ایک بھی دلیل نہیں دے سکی جس کی بناء لوگ اس کے موئقف کی صداقت پر یقین کرتے۔

 

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صابق صدر، دنیا میں خواتین کی واحد چیمپئن (یہ الگ بات ہے کہ آج تک کسی حقیقی مظلوم خاتون کو اس کی مدد سے کوئی انصاف نہیں ملا)، پاکستان کی آئرن لیڈی اور بھارت کی چہیتی عاصمہ جہانگیر نے 5 جون کی شام ایک ہنگامی پریس کانفرنس کا اعلان کیا جس کے لئے صحافی صبح سے انتظار کر رہے تھے۔ عا صمہ جہانگیر نے بڑے جوشیلے انداز میں کہا کہ "میرے قتل کی سازش تیار کی گئی ہے" (بتانے کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی انتہائی اہم نوعیت کا اعلان ہو)۔ عاصمہ نے مزید کہا کہ اس کے قتل کی منصوبہ بندی نان سٹیٹ ایکٹرز (مطلب ملک میں سرگرم انتہا پسند) نے نہیں بلکہ ریاست کے سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام نے کی ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنے قتل کی صورت میں اس کی زمہ داری پیشگی ملک کے سیکورٹی اداروں پر ڈال دی ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ ڈر کر ملک سے بھاگنے والی نہیں۔

 

تاہم حیران کن طور پر عاصمہ جہانگیر نے وہ تمام باتیں پھر سے دوہرائیں جو اس نے حسین حقانی کے میمو گیٹ کے مقدمے کی سماعت کے دوران صحافیوں سے گفتگو کے دوران کی تھیں کہ ملک کی قسمت کا فیصلہ فوج کے جرنیلوں نے نہیں ملک کے عوام کو کرنا ہے۔ البتہ پہلی بار جرنیلوں کے ساتھ اس نے 17 ججوں کا بھی ذکر کیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جرنیلوں، ججوں اور پارلیمینٹیرینز کو توسیع ملنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ علاوہ اذیں اس کو ایجنسی کے سربراہ کو فوج کا سربراہ بنائے جانے پر بھی اعتراض تھا (یہ اشارہ جنرل کیانی کی طرف تھا جو فوج کی اعلیٰ کمانڈ سنبھالنے سے پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ تھے)۔

 

گو عاصمہ جہانگیر نے پریس کانفرنس کو ہنگامی قرار دے کر اچانک اس کا اعلان کیا تھا لیکن ایک روز قبل 4 جون کی شب کاشف عباس اور نجم سیٹھی کے ٹاک شوز میں وہ اپنا مدعا ذیادہ کھلے انداز میں بیان کر چکی تھی۔ نجم سیٹھی کے پروگرام میں اس واضح طور پر فوج کے اعلیٰ حکام کو اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنا کا زمہ دار قرار دیتے ہوئے بار بار کسی اہم آدمی کا ذکر بھی کیا جس نے اسے منصوبہ کی اطلاع دی۔ مگر حیران کن طور پر نہ تو نجم سیٹھی نہ ہی کاشف عباس نے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی کہ وہ کون صاحب تھے جنہوں نے عاصمہ جہانگیر تک اس کے قتل کی منصوبہ بندی کی اطلاع پہنچائی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ نجم سیٹھی نے دو ٹوک الفاظ میں عاصمہ جہانگیر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کون آپ کو ہاتھ لگانے کی جراَت بھی کرتا ہے۔

 

عاصمہ جہانگیر کا تعلق پاکستان کے اس ترقی پسند طبقے سے ہے جس کی مذہب بیزاری مسلمہ حقیقت کی طرح سب پر عیاں ہے، لیکن یہ عجیب طرح کی مذہب بیزاری ہے جس نے اس طبقہ کو ہندو انتہا پسندوں سے انتہائی قریب اور ان کا اس حد تک حامی بنا دیا ہے کہ وہ ان کے مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے؟ ترقی پسند ہونا کوئی گناہ نہیں نہ ہی کسی کے ذاتی نظریئے و موقف پر اتراض کرنے کا ہمیں کوئی حق حاصل ہے۔ لیکن اپنی مذہبی اقدار سے بغاوت و مذہبب بیزاری کا اظہار کرنے والا یہ طبقہ جب دیوالی پر دیئے جلا کر واہگہ پر ہندووَں سے یک جہتی کا اظہار کے لئے پہنچتا ہے اور وہاں سے ماتھے پر تلک لگوا کر خوشی سے جھومتا ہے تو پھر ہر پاکستانی کو ان سے پوچھنے کا حق ہے کہ اسلام سے بیزاری اور ہندومت سے دلداری کا کیا مطلب؟ پھر پاکستان کام یہی طبقہ ملک کے سیکورٹی اداروں کا ہمیشہ سے مخالف رہا ہے، جس کی وجہ ملک میں بار بار لگنے والے مارشل لاء بتائے جاتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے ملک کی سلامتی کے سب سے بڑے دشمن بھارت سے مل کر وطن کے رکھوالوں کے خلاف سازشیں کی جائیں؟ حالانکہ ملک میں بہت سے ایسے نامور نام ہیں (نوبزادہ نصراللہ خان صاحب جیسے) جنہوں نے فوجی آمروں کی مخالفت میں جیلیں کاٹی لیکن بھارت کی ہمنوائی کبھی نہیں کی نہ ہی فوج سے اختلافات کو اپنے لئےوجہ شہرت بنایا۔

 

لیکن گزشتہ ساڑھے چار سال سے پاک فوج سیاست نسے دور ہے، مکمل طور پر لاتعلق ہے۔ عوام الناس کے شدید ترین تحفظات اور ملک میں امن و امان اور انتظامی بد حالی کی بد ترین صورتحال کے باوجود فوج نےسیاست میں مداخلت نہیں کی یہاں تک کہ خارجہ پالیسی، نیٹو سپلائی کی بحالی سے لے کر امریکہ سے تعلقات نو کی تشکیل تک سب کچھ پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے تو پھر عاصمہ جہانگیر کو فوج پر اپنےقتل کی منصوبہ بندی کرنے جیسے سنگین الزام لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اگر فوج پر تنقید ہی اس کا سبب ہے پھر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کو یہ الزام لگانا چاہئے تھا جس نے "ملٹری انکارپوریٹ" نامی کتاب لکھ کر  پاک فوج کو بد نام کرنے کی عملی کوشش کرنے کے علاوہ اخبارات میں کالم کے ذریعے بھی فوج پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا اور ٹیلی ویژن پر بھی فوج کے خلاف بولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ فوج کو جنوبی ایشیا میں انتشار و بد امنی کا سبب اور دہشت گردی کو فروغ دینے ادارہ کہنے والے احمد رشید نے بھی کبھی نہیں کہا کہ اسے فوج کی طرف سے قتل کرائے جانے کا خدشہ ہے، حالانکہ اس نے اپنی کتابوں میں فوج کے خلاف جو زہر اگلا ہے عاصمہ جہانگیر نے اس کا ایک فیصد بھی نہیں کہا۔ اور بھی ایسے بہت سے ایسے صحافی و تبصرہ نگار ہیں جو فوج اور پر تنقیند کی ہی کھٹی کھا رہے ہیں۔ تو پھر عاصمہ جہانگیر ہی کیوں؟

 

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف عاصمہ جہانگیر ہی دے سکتی ہیں کہ فوج اسے کیوں قتل کرانا چاہے گی؟ یہ کہہ کر تو اس نے ملک دشمن قوتوں اور ان کی پاک فوج و آئی ایس آئی مخالف ایجنسیوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے کہ وہ عالمی سطح پر پاک فوج و پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کے لئے عاصمہ جہانگیر کو قتل کرا دیں۔  پھر ملک میں سر گرم دہشت گرد جن کا ہدف ہی پاک فوج اور فوجی تنصیبات ہیں عاصمہ جہانگیر کو ٹھکانے لگا کر پاک فوج کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان تمام خطرات کے باوجود اگر عاصمہ جہانگیر نے فوج پر اتنا سنگین الزام لگایا ہے تو پھر اس کے مقاصد کا منظر عام پر آنا بے حد ضروری ہے ملک کے لئے بھی اور پاک فوج کی ساکھ کے لئے بھی۔ جس کے لئے سب سے پہلے تو وہ سورس عوام کے سامنے لایا جائے جس نے عاصمہ جہانگیر کو اس کے قتل کے منصوبہ کی اطلاع دی، پھر وہ سور س بتائے کہ یہ منصوبہ کب، کہا ں اور کس نے تیار کیا؟

 

عاصمہ جہانگیر جیسی جہاں دیدہ وکیل اگر سورس بتانے کو تیار نہیں تو پھر عوام اس کے خدشات اور فوج پر سنگین الزام کو کیا سمجھے کہ یہ سب سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا گیا؟ جی نہیں، بالکل نہیں۔ اس سے بڑھ کر عاصمہ جہانگیر کو اور شہرت کیا ملے گی جو آج اسے حاصل ہے۔  کہیں عاصمہ جہانگیر کی پریس کانفرنس اور اس سے ایک روز قبل فوج کے میڈیا ٹرائل کا تعلق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے کے حوالے سے منظر عام پر  آنے والے سکینڈل سے تو تعلق نہیں؟  کہ اس طرح فوج کو اپنی طرف مصروف رکھ کر  اسے اندرون خانہ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کی حمایت و مدد سے روکا جائے؟ کیونکہ 3 جون کی شب

"Chief Justice Iftikhar Chaudhary Family Gate Scandal Trap Story Disclosed by Shaheen Sehbai"

کے عنوان سے ایک ٹی وی کیمرہ انٹر ویو "واشنگٹن بیٹ" نامی ویب سائٹ کے زریعے یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا۔ انٹرویو دیکھیں تو آپ کو انداذہ ہوگا کہ اس پروگرام کا اہتمام اس سکینڈل کو منظر عام پر لانے کے لئے کیا گیا تھا۔ یوں اتنا بڑا سکینڈل وقت سے پہلے ہی منظر عام ہر آگیا جس پر عاصمہ جہانگیر کو یقیناْ صدمہ پہنچا ہوگا کیونکہ سکینڈل کے منظر عام پر آنے سے اس کے وہ تمام مقاصد جو اس کو خفیہ رکھ کر حاصل کیئے جا سکتے  تھے وہ دم توڑ گئے۔ ویسے بھی گزشتہ ایک برس سے عاصمہ جہانگیر  اپنے جیسے دیگر بہت سے وکلاء ساتھیوں کی طرح چیف جسٹس افتخار چوہدری سے ہر گز خوش نہیں۔  5 جون کی پریس کانفرنس میں اس نے فوج کے ساتھ 17 ججوں کے خلاف بول کر اِس نے اپنے بغض باطن کا کر ہی دیا ہے۔ جس کے بعد عاصمہ جہانگیر کے پاک فوج کے خلاف الزامات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب چیف جسٹس کو چاہئے کہ وہ اپنے بیٹے کی طرح عاصمہ جہانگیر کی پریس کانفرنس کا بھی سو موٹو نوٹس لیں اور فوج پر الزامات کے پس پردہ مقاصد سے پردہ اٹھا کر انہیں عوام الناس کے سامنے لایا جائے۔ اگر واقعی کے الزامات میں صداقت ہے تو پھر منصوبہ سازوں کو سزا ضرور ملنی چاہئے۔۔۔

 

 

تحریر : خالد بیگ

Truth by Kbaigححھ


--

Friday, June 1, 2012

ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری پر پریشان پاکستانی دانشوروں کا منافقانہ طرزعمل



تحریر: خالد بیگ

ڈاکٹر شکیل



حیرانی کی بات ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بعد ڈاکٹر غلام نبی فائی کی گرفتاری پر پاکستان میں خاموش رہنے والے ادیب، دانشور، صحافی و تبصرہ نگار شدید بے حالی کا شکار ہیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا ورنہ وہ ڈولی میں بٹھا کر برات کی شکل میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی سفارت خانے چھوڑ کر آتے۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کہاں سے دلائل ڈھونڈ کر لائیں جن سے ثابت کیا جا سکے کہ ڈاکٹر آفریدی آج کے دور کا سب سے بڑا ہیرو ہے۔ جس نے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو گرفتار کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور اقوام عالم کو تباہی سے بچا لیا۔

            اس کے برعکس امریکہ و یورپ میں ڈاکٹروں کی تنظیمیں صرف ڈاکٹر شکیل ہی نہیں امریکی حکومت اور سی-آئی-اے کی بھی مذمت کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس نے طب کے پیشے کی توہین کرتے ہوئے ایبٹ آباد کے بہت سے معصوم بچوں اور ان لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگا دیا ہے جنہیں ہیپا ٹائٹس بی کے صرف ایک حفاضتی ٹیکہ لگانے کے بعد چھوڑ دیا گیا، جبکہ یہ تین ٹیکوں پر مشتمل کورس ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کی عالمی تنظیموں کے مطابق ڈاکٹر شکیل نےاپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کا احساس پاکستانی قوم کو چند برسوں بعد اس وقت ہوگا جب صرف ایک انجیکشن لگوانے والے ایبٹ آباد کے معصوم بچوں و دیگر جعلی ویکسینیشن کرانے والوں کو موزی مرض نے آ لیا۔  پاکستان میں صحت کے حوالے سے دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ویکسینیشن خاص طور پر پولیو کے قطروں کے بارے میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل کے اقدام نے عالمی اداروں کے پروگرامز کی مخالفت کرنے والے قبائلیوں کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنے موقف کی صداقت کے لئے ڈاکٹر آفریدی کی مثال کو بطور ثبوت پیش کریں کہ اس کے ہیلتھ پروگرام کا مقصد وہاں بسنے والوں کی صحت نہیں بلکہ امریکی و سی-آئی-اے کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔

پولیو اور اس جیسی ویکسین کی مہموں پر اعتبار کیسے کیا جائے؟


ڈاکٹر آفریدی کے لئے تینتیس برس کی سزا کو ڈاکٹروں کی عالمی تنظیمیں مذاق قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اتنے بھیانک جرم پر جس میں ڈاکٹفر آفریدی نے اپنے پیشے اور ڈگری کو استعمال کیا اسے انتہائی عبرت ناک سزا ملنی چاہئے۔ انہوں نے پاکستان میں ڈاکٹروں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ و ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف احتجاج کریں کیوںکہ یہ ان کے پیشہ کا تقاضہ بھی ہے جس سے وہ منسلک ہیں ورنہ سی-آئی-اے انہیں اپنے مضموم مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہے گی۔

سی-آئی-اے کی مزمت کرتے ہوئے نیویارک میں امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم نے سوال کیا ہے کہ اگر چین اپنے مطلوب دہشت گرد اسد ابو خلیل کو، جسے امریکہ نے پناہ دے رکھی ہے، تلاش کرنے کے لئے امریکہ ہی کے کسی ڈاکٹر کو استعمال کرتے ہوئے امریکی بچوں کو جعلی ویکسین کا شکار بنائے اور اپنے مطلوب دہشت گرد کو قتل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو امریکی عوام، میڈیا، سول سوسائٹی اور ڈاکٹروں کے علاوہ حکومت کا کیا رد عمل ہوگا؟اسی طرح ایران کے خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے امریکہ میں پناہ گزین ایران مخالف دہشت گردون تک پہنچنے کے لئے وہی حربہ استعمال کرے جو امریکہ نے پاکستان میں استعمال کیا تو پھر امریکیوں کو کیسا لگے گا؟ جبکہ ایران برہا احتجاج کر چکا ہے کہ انہیں دہشت گرد گروپوں کی مدد سے ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کرایا جا رہا ہے۔ سی-آئی-اے کے خلاف مزمتی بیان میں سی-آئی-اے کے زیر اثر چلنے والے کیوبا کے دہشت گرد گروپ کے سربراہ کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا گیا ہے کہ امریکہ میں آباد کیوبن نژاد ڈاکٹر سیکڑوں بچوں کی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے دہشت گردوں کے سربراہ تک پہنچنے اور اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو امریکہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کر یگا؟ کیا اسے بھی تینتیس برص کی ہی سزا ہوگی؟ اگر ایسا ہوا تو وہ ڈاکٹر اور اسکے اہل خانہ اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کریں گے۔



ڈاکٹر آفریدی کی گرفتاری پر امریکی ردعمل انتہائی شرمناک اور پاکستان کی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے۔ جسے کسی بھی طرح ڈرون حملوں میں بے گناہوں کے قتل عام یا سلالہ چیک پوسٹ پر ۱۲۴ پاکستانی فوجیوں کو ناحق شہید کرنے سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا۔  امریکیوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر ڈاکٹر آفریدی کے علم میں آ ہی  گیا تھا کہ اسامہ ایبٹ آباد میں موجود ہے تو کیا یہ اس کا فرض نہیں تھا کہ وہ حکومت پاکستان یا پاکستانی خفیہ اداروں کو اس کی اطلاع دے؟ کیا اس طرح امریکہ نے  اپنے مفاد کے لئے پاکستانی معاشرے میں غداری اور اپنی ریاست سے وابستگی کے خلاف ایسا بیج نہیں بو دیا جس کے اثرات ختم کرنے کے لئے پاکستانی نسلوں کو بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دینا پڑیں گی؟  اگر امریکہ یہ کہتا ہے کہ اسے پاکستانی خفیہ اداروں پر اعتبار نہیں تو یہ توہین ہے پاکستان کے ان تمام فوجی و پولیس، سول آبادی و خفیہ اداروں سے تعلق رکھنے والے ان چالیس ہزار جوانوں اور عام شہریوں کے خون کی جودہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ مین شامل ہو کر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جنل ڈیمپسی امریکہ میں تسلیم کر چکا ہے کہ امریکی فوجیوں کی جتنی نعشیں ہم افغانستان سےواپس لائے ہیں، اس سے دگنی تعداد میں پاکستانی فوجی اپنی ہی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔ تو یہ دہشت گرد کون ہیں جو پاکستان میں پاکستانی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں؟ انہیں جدید اسلحہ اور اس کے استعمال کی تربیت کون فراہم کر رہا ہے؟ انہیں مالی معاونت کہاں سے مل رہی ہے؟ ان کے پاس مواصلات کا نظام کس طرح چل رہا ہے؟ تو کیا پاکستانی عوام یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ امریکہ و بھارت جیسے اس کے اتحادی مل کر پاکستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں؟ نائین الیون میں اگر تین لاکھ امریکی ہلاک ہو گئے ہوں تو امریکہ اب تک عراق و افغانستان میں تیس لاکھ انسانوں کی بلی لے چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔

یہاں امریکی میرین بریڈلے میننگ کا ذکر بے حد ضروری ہے۔ امریکہ نے اپنے تیئس سالہ فوجی جوان کو کس جرم میں گرفتار کر رکھا ہے؟ جس کے بارے میں امکان ہے کہ اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ اس نے امریکی فوجی راز افشاء نہیں کئے، اس نے قتل یا اور کوئی سنگین جرم نہیں کیا تو پھر اس پر مقدمہ کیوں؟ اس نے اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر امریکی فوجیوں کے جنگی جرائم کا پردہ چاک کیا، تو پھر اس کے لئے سزا کیوں؟  کیا اقوام متحدہ یا جنیوا کنونشن جنگ کے اصول وضع نہیں کرتے اور اگر کسی ملک کی فوج ان سے انحراف کرے تو اس پر مقدمہ کے لئے عالمی عدالت میں مقدمہ کا کیا جواز ہے؟ امریکہ کو تو اپنے سپاہی کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا کہ اس نے عالمی قوانین کے مطابق جنگی جرائم میں ملوث اپنے ہی ساتھیوں کو سامنے لا کر امریکہ کی مدد کی کہ وہ اپنی فوج کی صفوں میں موجود ذہنی مریضوں کا محاسبہ کر کے اپنی ساکھ بہتر بنا سکے۔  دوسرے لفظوں میں اس نے ڈاکٹر شکیل کی طرح کے مجرموں کا بھانڈا پھوڑ کر اقوام متحدہ و امریکہ ہی نہیں بلکہ انسانیت کی مدد کی ہے۔ لیکن  ایسا نہیں ہوگا کیونکہ عراق و افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی پہرست اس قدر طویل ہے کہ اگر امریکی فوج میں زہنی مریضوں یا تشدد و قتل کر کے خوشی محسوس کرنے والوں کی فہرست تیار کی جائے تو آدھی سے زیادہ امریکی فوج جیلوں میں بند ہوگی۔

کیا اس تکون سے بہت کچھ واضح نہیں ہو جاتا؟


ڈاکٹر آفریدی پر امریکی موقف ہو یا ڈاکٹر غلام نبی فائی کے خلاف امریکی حکومت کا متعصبانہ و منافقانہ طرزعمل یہ نشاندہی کرتا ہے امریکی فطائی ذہنیت کی۔  اصولی طور پر امریکہ کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ وہ جمہوریت، جمہوری انسانی حقوق یا انسانیت کچھ بھی نہیں مانتا کیونکہ وہ طاقتور ہے اور دنیا میں بالاتر ہے۔ وہ فطائیت پر یقین رکھتا ہے۔ جو بھی اس کے مفادات کی راہ میں آئے اسے اس دنیا میں رہنے یا جینے کا کوئی حق نہیں۔ رہی بات ڈاکٹر آفریدی کو سزا کی تو تیس مئی کو ڈان اخبار کے مطابق ڈاکٹر شکیل کو سزا اسکے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے ایک گروہ لشکر اسلام اور اس کے سبراہ منگل باغ سے تعلق اور ان کے زخمیوں کے علاج معالجے کی بناء پر دی گئِ ہے۔ اس طرح اگر سی-آئی-اے  کے ڈاکٹر شکیل اور ڈاکٹر شکیل کے منگل باغ گروپ کے ساتھ تعلق یا اس تکون کو دیکھا جائے تو پھر کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ پاکستان میں منگل باغ ہو یا دیگر اس طرح کے بہت سے گروہ یہ سب امریکہ و سی-آئی-اے کی آشیر باد سے ہی پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔۔۔