My Blog List

Wednesday, April 11, 2012

سیاچن کا المناک واقعہ اور ہمارے حکمرانوں کی بے حسی۔۔۔




سات اپریل کو جس وقت خبر آئی کہ سیاچن میں 6000 میٹر کی بلندی پر واقع  پاک فوج کا بٹالین ہیڈ کوارٹر اچانک پھسل کر آنے والے ایک کلومیٹر طویل اور 25 میٹر بلند برفانی تودے میں دب گیا ہےتو پاکستان کے صدر محترم آصف علی زرداری لاہور میں ڈیرے ڈالے بھارت روانگی کے لئے پر تول رہے تھے۔ صدر پاکستان کی بھارت یاترا کا شیڈول بھی یاد رہے سب سے پہلے 2 اپریل کو ایک بھارتی اخبار کی وجہ سے منظر عام پر آیا تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے لئے در پردہ معاملات بہت پہلے سے طے کئے گئےتھے۔ لیکن دنیا کے بلند ترین محاز جنگ پر اپنے وطن کے لئے مشکل ترین موسمی حالات میں لڑنے والے 135 کے قریب فوجی افسر و جوانوں کی برف تلے دب جانے کی اطلاعات اتنی بھیانک اور دہلا دینے والی تھیں کہ اس کے بعد طے شدہ شیڈول کے مطابق صدر کا دورے پر جانا صرف فوجی جوانوں کے لئے ہی نہیں پاکستان کے بیشتر عوام کے لئے بھی حیران کن اور دکھ کا باعث تھا۔
ہاتھوں سے پاکستانی فوجی برف ہٹا کر اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈ رہے ہیں

            اتنے بڑے سانحہ پر اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ صدر پاکستان اپنا نجی دورہ چند دنوں کے لئے موخر کر کے فوری طور پر اپنی کابینہ و میڈیا ٹیم کے ہمراہ سیا چن میں گیاری سیکٹر پہنچتے جہاں فوج کے سربراہ جنرل کیانی پہلے ہی موجود تھے۔ اس طرح ایک طرف تو برف تلے دبے ہوئے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے اہل خانہ، موقع پر امدادی کاموں میں حصہ لینے والے فوجیوں کے علاوہ فوج میں نیچے سے لے کر اوپر تک ہر سپاہی کو حوصلہ ملتا کہ ان کا چیف ہی نہیں بلکہ ملک کا سربراہ بھی ان کے شانہ بشانہ موقعہ پر موجود ہے، تو دوسری طرف دنیا میں سب کو سیاچن پر دونوں ممالک کی موجودگی کی وجوہات کا علم ہوتا۔ بھارت کو بھی احساس ہوتا کہ پاکستان کے سربراہوں کے لئے ان کا اپنا وطن اور اپنی فوج کتنی اہم ہے۔ یقینا اس طرح سیاچن کے تنازعہ کے حل کے لئے بھارت پر دبائو بڑھتا۔ جس نے 1984 میں جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاچن پر نا جائز قبضہ کر لیا تو پاکستان بھی وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنے علاقے کی حفاظت کے لئے سرد ترین مقام پر فوجیں تعینات کرنے پر مجبور ہو گیا۔
جنرل کیانی گیاری سیکٹر میں

لیکن صد افسوس کہ صدر پاکستان کے لئے بھارت کا نجی دورہ اور لاہور میں بیٹھ کر اپنے سیاسی حریفوں کو للکارنا و بڑھکیں مارنا زیادہ اہم تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے روز جب صدر پاکستان 40 رکنی وفد کے ہمراہ بھارت پہنچے تو پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر سیاچن میں زندہ دفن ہونے والے پاکستان کے بیٹوں کی بجائےصدر پاکستان اور اس کے فرزند کی مصروفیات کی خبریں چلتی رہیں۔ ٹیلی ویژن پر چند تبصرہ نگاروں کا انداز تو ایسا ہی تھا کہ جیسے صدر زرداری کا دورہ بھارت پاکستان اور پاکستانی عوام پر بہت بڑا احسان ہے۔ یہ جب دہلی سے واپس اسلام آباد پہنچیں گے تو مسئلہ کشمیر سے لیکر دریائوں کی بندش تک اور سیاچن کا حل ان کی جیب میں ہوگا۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد بھارت نواز پاکستانی میڈیا ماسٹروں کو تو نہیں البتہ زرداری کے دورہ سے توقعات رکھنے والے پاکستانیوں کو ضرور احساس ہوگا کہ ماضی کی طرح فائدے میں اب بھی بھارت ہی رہا اور پاکستان کے لئے صدر پاکستان کو خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا تھا۔ ہمارے حکمران اپنی ذات کے لئے کچھ مراعات حاصل کر سکے اس کا علم شائد ماضی کی طرح آیئندہ بھی نہ ہو سکے۔

رات کے وقت بھی پاکستان کے یہ جوان اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈنے میں مصروف ہیں
کیونکہ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب ہمارے حکمرانوں نے بھارتی خوشنودی کے لئے پاکستانی مفاد قربان کئے ہوں۔مثال کے طور پر تحریک خالصتان میں متحرک سکھ حریت پسندوں کی لسٹیں بھارت کے حوالے کرنے کو ہی دیکھ لیں کہ ایک موقعہ پر پاکستان کی خاتون وزیر اعظم کی پارلیمنٹ میں کہنا پڑا کہ وہ اگر بھارت کی مدد نہ کرتی تو بھارت کے لئے اپنا وجود جغرافیہ برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا۔ حالانکہ اگر بھارتی پنجاب خالصتان نہ بھی بنتا تب بھی وہاں سرگرم سکھ علحدگی پسندوں نے بھارت کو اس قابل نہیں چھوڑنا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ کی نفری پر مشتمل بھاری بھرکم فوج رکھ کر وہاں کشمیریوں کی نسل کشی کا عمل جاری رکھ سکے نہ ہی بھارت کے لئے ممکن تھا کہ وہ پاکستانی دریائوں کا پانی روک کر پاکستان کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے اور پاکستانی زرخیز زمین کو بنجر کرنے جیسے ناپاک منصوبے کو آگے بڑھاتا۔ اب اگر پاکستانی عوام غور کریں تو انہیں احساس ہوگا کہ سکھ علحدگی پسندوں کی لسٹیں فراہم کرنے پر انفرادی طور پر کسی نے ضرور بھارت سے مفاد لئے ہونگے تاہم پاکستان کو دہشت گردی، بد امنی، بلوچستان میں مصلح بغاوت اور ،قبوضہ کشمیر میں عورتوں کی بطور سرکاری حکمت عملی عصمت دری اور زمینوں کے لئے پانی اور بجلی کی قلت کی وجہ سے بحران کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

کچھ اس طرح کی صورت حال 25 اگست 1989 کی ہوئی جب پی-آئی-اے کا فوکر مسافر بردار طیارہ عملے سمیت 55 افراد کو لے کر گلگت سے اڑا اور غلطی سے مقبوضہ کشمیر کی حدود میں داخل ہو گیا، جہاں اسے بھارتی فوج نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ طیارہ میں مسافر سوار ہیں، مار گرایا۔ دہلی میں خبر پہنچی تو راجیو گاندھی نے فوری طور پر پاکستانی وزیراعظم سے حالات سنبھالنے کی درخواست کی۔ جسے تسلیم کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے اپنی عوام اور مسافروں کے لواحقین کو یہی بتایا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے لاپتہ ہونے والے طیارہ کی تلاش جاری ہے۔ یہ تلاش 23 برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک ختم نہیں ہوئی نہ ہی ہوگی۔ یوں پی آئی اے کا طیارہ نام نہاد جمہوریت بھارت اور دونوں ممالک کے باہمی دوستانہ تعلقات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس کے بدلے پاکستان کو کیا ملا؟ یہ سوال تو پاکستان کے ذہین ترین اینکر و اینکریاں ہی پوچھ سکتے ہیں، ورنی عام پاکستانی کی کیا مجال ہے۔

تاہم ہمارے حکمرانوں کی بھارتی حکمرانوں سے قربت و زاتی مراسم کے باوجود اب قوم مطالبہ کرتی ہے کہ بھارت کے ساتھ سیاچن جیسے تنازعہ پر کھل کر بات کی جائے۔ اگر وہ اس کے حل پر تیار ہوتا ہے تو ٹھیک ورنہ بھارت کے ساتھ تجارتی دوستی انہیں ہی مبارک ہو۔ جس کا ثمر ماضی کی طرح ممکن ہے چند اداروں، خاندان یا افراد کو تو ممکن ہے ملے ورنہ عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ رہی سیاچن میں برف تلے دبنے والے پاکستانی نوجوانوں کے لئے حکمران اشرافیہ کی بے حسی تو یہ پہلا موقع نہیں۔ سوات کا آپریشن ہو یا قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، کب ہمارے حکمران اپنے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے پہنچے ہیں۔ اس کے باوجود پوری قوم اپنے بھائیوں، بیٹوں اور وطن کے سپوتوں کے ساتھ ہے اور وطن کے لئے اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کرنے والوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ کیونکہ انہی کے دم سے ہماری آزادی اور سب سے بڑھ کر سیاسی اشرافیہ کی حاکمیت قائم ہے۔

نہ کوئی ہڑتال،
نہ کوئی سوگ،
نہ کوئی شور،
نہ کوئی شٹر ڈاون،
نہ کوئی پہیہ جام،
نہ کوئی دھمکی،
نہ کوئی پرچہ موخر،
نہ کوئی ادارہ بند۔۔۔

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زقواۃ ہے

برف کی سفید چادر اوڑھ کر سو جانے والے مجاہدوں کو قوم کا عقیدت بھرا سلام۔

پاکستانی فوج کے بہادر جوان اس وقت جبکہ دنیا سے آنے والی امدادی ٹیمیں موسم کی خرابی کی وجہ سے جائے حادثہ پر نہیں پہنچ پا رہیں، اپنے بھایئوں کو بچانے کے لئے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اب تک 450 میٹر طویل سرنگ بنا کا ھیڈ کوارٹر کے نزدیک پہنچنے کی کوشش کی ہے امید ہے قوم انشاءاللہ جلد خوشکبری سنے 
گی۔۔۔
بھاری مشینری کی مدد سے برف ہٹانے کا کام جاری ہے


A heart touching poem by a SOLDIER…
Dedicated to all martyrs of Siachen!

If I die in a war zone,
Box me up & send me home,

Put my medals on my chest,
Tell my mom I did my best,

Tell my dad not to bow,
He won't get tension from me now,

Tell my brother to study perfectly,
Keys of my bike will be his permanently,

Tell my sis not to be upset,
Her bro will not rise after this sunset,

Tell my love not to cry..
"BCOZ I AM A SOLDIER… BORN TO DIE..!

تحریر:
          خالد بیگ