My Blog List

Wednesday, December 19, 2012

Friday, October 26, 2012

ملالہ کے قتل کا حکم دینے والے کو بھی امریکی سرپرستی حاصل ہے؟

ڈانا پریسٹ ایک مجاہد جو کہ آجکل طالبان کہلاتے ہیں کے ہمراہ


تحریر: خالد بیگ

بازی گری بھی کیا کمال فن ہےکہ کسی بھی بظاہر دکھائے جانے والےکرتب یا وقوعے کے جھوٹ پر مبنی ہونے کے باوجود دیکھنے والے اُس پر اِس انداز سے یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کا ادراک رکھنے والے بھی اپنی تمام تر سمجھ بوجھ کے باوجود جھوٹ کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی کمال پراپیگنڈہ کا بھی ہے کہ اس کے ماہر، بازیگرکی طرح اپنے خاص مقاصد کو کچھ اس انداز سے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ انتہائی سچا واقعہ جھوٹ اور  جھوٹ سچ دکھائی دیتا ہے۔

                        کچھ اس طرح کا واقعہ سوات سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی کمسن مگر انتہائی بہادر بیٹی ملالہ کے ساتھ بھی پیش آیا۔ اس پر یہ جانتے ہوئے قاتلانہ حملہ کیا گیا کہ وہ معصوم سی بچی نہ عالمی شاطرانہ چالوں کو سمجھتی ہے نہ ہی اسے سیاسی ضرورتوں یا مقاصد کے لئے دیئے جانے والےبڑے بڑے بیانات کا مفہوم معلوم ہے نہ ہی اس کی کِسی خاص گروہ، نظریئے یا افراد سے کوئی عناد یا دشمنی تھی۔ وہ تو صرف طالبان نما پاکستان و اسلام دشمن اس گروہ ہاتھوں پریشان تھی جنہوں نے سوات میں نہ صرف لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی تھی بلکہ بہت سی عمارتیں اس گروہ کے ہاتھوں زمیں بوس بھی ہو چکی تھیں۔ صرف یہی نہیں وہ کم عمر ہونے کا باوجود اس حقیقت سے بھی آگاہ ہو چکی تھی کہ سوات میں اسلام کے نفاذ پر دہشت کا ماحول پیدا کرنے والےجب اورجِس گھر میں چاہیں داخل ہو کر وہاں موجود جوان لڑکیوں اور عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالیں۔

                        یہی وہ عوامل تھے جو اس کے ذہن پر اثر انداز ہوئے اور اس نے سوات میں زنانہ تعلیمی اداروں کی تباہی کے روزانہ پیش آنے والے واقعات کو قلمبند کرنا شروع کر دیا، یا پھر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے سوات بھر میں گردش کرنے والی بازگشت کو اپنی ڈائری میں منتقل کرتی رہی۔ جِس سے کہیں بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ اس گروہ کو چیلنج کر رہی تھی جِس نے سوات کو سوات کے باسیوں کے لئے جہنم بنا ڈالا تھا۔ کہ اچانک ایک دن خبر آئی کہ اِس کی ڈائری کی بناء پر سکول سے واپس آتے ہوئے راستے میں اس پر جان لیوا حملہ کر دیا گیا۔

ملالہ یسفزئی

                        ملالہ پر قاتلانہ حملہ کی خبر جیسے ہی جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیلی اس پر ہر پاکستانی افسردہ اور اس معصوم کی زندگی کےلئے دعا گو تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر عالمی میڈیا پر اہمیت اختیار کر گئی اور ان مغربی حکمرانوں کے مذمتی بیانات بھی خبر کی زینت بننے لگے جِن کے ہاتھ ہی نہیں پورا جسم اور روح عراق، افغانستان، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کے خون ناحق سے لتھڑے ہوئے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملالہ پر قاتلانہ حملہ کے خلاف احتجاج نے پاکستان میں اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف مہم کی صورت اختیار کرلی۔ ٹیلی ویژن پر چلنے والے بعض "ٹاک شوز" کے مباحثوں سے یوں ظاہر ہونے لگاکہ جیسے پاکستان میں اسلام کی بات کرنے والا یا مسجد جانے والا ہر شخص ملالہ پر حملے میں ملوث ہے، اس بحث مباحثے کے درمیان پاکستانی قوم جو ملالہ پر حملے کے خلاف احتجاج میں ایک تھی مگر اس وقت دو حصوں میں بٹ گئے جب اس گھنائونے فعل کی آڑ میں مادر پدر آزاد مذہب بیزار طبقے نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسلام کا نام لینے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ساتھ ہی پاک فوج سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ شروع کر دیا (انداز بلکل وہی تھا جو اس طبقے نے لال مسجد کے خلاف آپریشن کے لئے اختیار کیا تھا۔ جس میں ہمارے ٹی وی چینلز کے خود کو مفکر اعظم سمجھنے والے دور حاضر کے ارسطو نما انیکر پرسن پیش پیش تھے اور جب آپریشن ہوا تو یہی اینکر لال مسجد والوں کو مظلوم اور فوج کو ان کا قاتل قرار دینے والوں میں بھی سب سے آگے نظر آئے)۔ یہ سوچے بغیر کہ ملک میں جمہوری نظام ہے اور فوج پارلیمنٹ کے بغیر شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کرے گی۔ امریکی حکومت جو پہلے ہی شمالی وزیرستان میں کی خواہاں تھی اس نے بھی اپنے پروردہ پاکستان کے لبرل طبقے کی ہاں میں ہاں ملائی اور آپریشن کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا۔

ملالہ کے قتل کا حکم دینے والا مولوی فضل اللہ

                        تاہم صورتحال اس وقت عجیب شکل اختیار کر گئی جب 18 اکتوبر کو "واشنگٹن پوسٹ" میں امریکہ کی معروف صحافی ڈانا پریسٹ نے ملالہ کے قتل کا حکم دینے والے مولوی فضل اللہ (جسے وہ Mullah Radio   کے نام سے یاد کرتی ہے) کے حوالے سے


کے نام سے سٹوری لکھ کر معاملے کو نیا رخ دے دیا۔ Dana نے بتایا کہ فضل اللہ جو کہ سوات میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا تین برص قبل وہاں پاک فوج کے کامیاب آپریشن کے بعد فرار ہو کر افغانستان میں پناہ گزین ہوا۔ اب وہیں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کو کنٹرول کر رہا ہے۔ Dana کے بقول مولوی فضل اللہ اور اس کے دیگر ہزاروں پیروکار افغانستان کے صوبہ کنڑ اور نورستان میں Enjoy کر رہے ہیں جنہیں وہاں کے گورنر کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اور افغان حکومت اس امر سے لاعلم نہیں ہو سکتی کہ مولوی فضل اللہ نے وہاں تربیتی کیمپ کر رکھے ہیں۔ Dana کے مضمون میں Institute for the study of warکے Senior Research Analyst  "Jeff Dressler" اور Long War Journalکے ایڈیٹر Bill Roggio کا ذکر بھی موجود ہے، جس کے بقول وہ لکھتی ہے کہ فضل اللہ نیٹو سمیت امریکہ کے سیکورٹی کے تمام اداروں کو مطلوب ہے تو پھر ISAF یا نیٹو فورسز اس کو گرفتار کیوں نہیں کرتیں؟ اصولاً تو ملالہ کے غم میں نڈھال امریکی و برطانوی حکمرانوں کو فضل اللہ کے خلاف پہلی فرصت میں کاروائی کرنی چاہئے تھی اور مغربی سول سوسائٹی کا مطالبی بھی یہی ہونا چاہئے تھا کہ فضل اللہ کو گرفتار کیا جائے جو ملالہ کا اصل مجرم ہے اور انجلینا جولی کو بھی میڈونا کے ساتھ یہی مطالبہ کرنا چاہئے تھا۔ مگر اس پر سب خاموش ہیں۔


ملالہ برمنگھم کے ہسپتال میں زیر علاج

                        اب اگر دیکھا جائے تو امریکی خواہش یا حکم کی وجہ سے ملالہ برطانیہ میں زیر علاج ہے، انجلینا جولی کے علاوہ امریکی سول سوسائٹی کے دیگر لوگ ملالہ کو امن کا نوبل انعام دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اقام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون بھی ملالہ کے لئے افسردہ ہیں، برطانیہ کے سابق وزیراعظم گورڈن برائون ملالہ پر حملے کی یاد میں 10 نومبر کو مستقل یادگار کا درجہ دینے کے لئے اس تاریخ کو عالمی سطح پر تہوار منانے کا اعلان کر رہے ہیں تو دوسری طرف ملالہ کے قتل کا حکم دینے والا مولوی فضل اللہ بھی امریکی رضامندی یا قصداً چشم پوشی کی وجہ سے افغانستان میں پناہ گزین ہے جِسے تربیت و اسلحہ کی فراہمی اور مالی معاونت Afghan Intelligenceکے National Directorate of Security (NDS) اور RAW کی مکمل مدد حاصل ہے۔ جو فضل اللہ کو فاٹا اور دیگر پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مذہب بیزار طبقے کو ابھی تک یہ توفیق نہیں ہوئِی کہ وا ڈانا پریسٹ کی طرح امریکی حکومت یا صدر اوبامہ سے مولوی فضل اللہ کے ٹھکانے پر ڈرون حملے کا مطالبہ کر لے۔ تو پھر قارئین یہ سب بازی گری نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ کیا کہتے ہیں اس شعبدہ بازی کے حوالے سے؟

To read this post in English please visit

Sunday, September 16, 2012

پاک فوج میں خود احتسابی کا نظام اور این-ایل-سی سکینڈل...



پاک فوج میں خود احتسابی کا نظام اور این-ایل-سی سکینڈل

تحریر : خالد بیگ
کیپٹن ارشد حیدرآباد میں بطور سٹاف آفیسر ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ اس دوران اسکی وہیں شادی ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد وہ واپس توپ خانہ (آرٹلری) کی یونٹ میں آزاد کشمیر پوسٹ ہو گیا۔ شومی اتفاق کچھ عرصہ بعد ہی اس کی یونٹ حیدرآباد پوسٹ ہو گئی جہاں اندرون سندھ ڈکیتوں کی سرکوبی کیلئے آپریشن کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ یہ 1992 کا دور تھا، کیپٹن ارشد میجر کے رینک پر پروموٹ ہو چکا تھا۔ جب ڈکیتوں کے خلاف آپریشن کی ذمہ داری اسکی یونٹ کو سونپی گئی۔ اس دوران ایک جگہ ڈکیتوں کی موجودگی کی اطلاع پر میجر ارشد اپنے سپاہیوں اور پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ موقعہ پر پہنچے جہاں شدید فائرنگ و مقابلے کے بعد درجن بھر ڈکیت مار دیئے گئے۔ دوسرے روز اخبار ات ڈکیتوں کےخلاف کامیاب آپریشن کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ ڈکیتوں کے پس منظر اور ان سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی تصویری شکل میں اخبارات کے صفحات پر نمایاں تھے۔ چند روز بعد حیدرآباد کے ایک اخبار نے خبر شائع کی کہ مرنے والے ڈکیت نہیں بلکہ اندرون سندھ کے زمیندار تھے جنہیں سازش کے ذریعے قتل کرا دیا گیا۔

معاملہ پولیس یا سول انتظامیہ کا ہوتا تو شاید کچھ بھی نہ ہوتا لیکن چونکہ آُریشن میں فوج براہراست ملوث تھی، جس کے نتیجے میں خبر کے شائع ہوتے ہی فوج کا خود احتسابی نظام حرکت میں آگیا اور تحقیقات کے نتیجہ میں جو حقائق سامنے آئے وہ بلکل مختلف تھے۔ جس کا مختصر احوال یہ ہے کہہ ڈکیتوں کے نام پر مارے گئے افراد کا زمین پر قبضہ کے حوالےسے میجر ارشد کے سسرالیوں سے تنازعہ چل رہا تھا۔ میجر ارشد کے سسرالیوں نے فوج کے ڈکیتوں کے خلاف آپریشن کی آڑ میں اپنے مخالفین کو قتل کرانے کا منصوبہ بنایا جس کا مشورہ وہاں تعینات ان کے ایک دوست سینئر پولیس افسر نے دیا تھا۔

بس پھر کیا تھا پولیس کے اعلٰی حکام نے فوج کو ایک مقام پر چھپے ہوئے ڈکیتوں کی اطلاع دی جو اکٹھے ہو کر بڑی سنگین واردات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ حالانکہ انہیں میجر ارشد کے سسرالی وزیروں نے پنچایت کے لئے بلوایا تھا۔ تحقیقات مکمل ہوتے ہی میجر ارشد اور اس کے تین ساتھی فوجیوں کو ملٹری پولیس نے حراست میں لے لیا، ان کا کورٹ مارشل ہوا اور سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔ جس پر بعد ازاں عمل درآمد بھی ہو گیا کیونکہ فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز جنجوعہ نے بھی ان کی سزائے موت کی توثیق کر دی تھی۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ میجر ارشد کے سسرالی رشتہ داروں یا پولیس کے وہ ذمہ داران جنہوں نے یہ قتل کا منصوبہ بنایا تھا انہیں کسی نے نہیں پوچھا۔ صرف یہی نہیں تحقیقات مکمل ہوتے ہی 18 ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈر میجر جنرل سلیم اسحاق کو فوری طور پر حیدرآباد سے تبدیل کر دیا گیا اور ایک بریگیڈیئر صاحب گھر بھیج دیئے گئے۔

 یہ تو صرف ایک واقعہ ہے جواپنی نوعیت کی وجہ سے منظر عام پر آگیا۔ لیکن فوج میں بطور ادارہ موجود خوداحتسابی کے پربوط نظام کی بدولت نہ جانے کتنے افسران نوکری سے فارغ کر دیئے گئے یا پھر انتہائی پروفیشنل اور شاندار پروفائل کے باوجود ترقی کی دوڑ سے باہر نکال دیئے گئے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فوج میں سب فرشتے ہیں یا کرپشن کے مرتکب نہیں ہوتے لیکن فوج میں شمولیت اختیار کرنے کرنے والےہر نوجوان افسر کا اصل خواب اس کا مستقبل یا کیریئر ہوتا ہے جس کو وہ شفاف اور صاف رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ پھر ضابطے یا قانون بنائے ہی اسی لئے جاتے ہیں کہ احتساب کی تلوار سر پر لٹکتی دیکھ کر انسان اپنے پر طاری کسی کمزور لمحے میں بھی احتساب کے خوف سے خود کو بد عنوانی یا ہر اس کام سے دور رکھے جو ڈسپلن کی خلاف ورزی کے دائرے میں آتا ہو۔ لیکن ملک کے عمومی سیاسی حالات اور ملک کی نظریاتی شناخت کے علاوہ آزادی کے بعد سے پاکستان کے حصے میں آنے والےخطرات کی بدولت فوج کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے عوام الناس سمجھتے ہیں کہ فوج یا فوجی افسر مقدس گائے ہے جس کا نہ تو احتساب ہوتا ہے نہ کوئی ان سے جواب طلب کر سکتا ہے۔ فوج اقتدار میں کیوں آتی ہے یہ ایک الگ بحث ہےلیکن بطور ادارہ اگر پاکستانی فوج میں خود احتسابی کا نظام نہ ہوتا تو نہ ایٹمی پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچتا اور نہ ہی اس انداز سے محفوظ و مستحکم ہوتا کہ باوجود بھیانک عالمی سازشوں کے ابھی تک قائم و دائم ہے اور اللہ کے حکم سے آیئندہ بھی رہے گا۔    

این ایل سی میں گھپلوں کی مثال ہی لے لیجئے، پاکستان میں3 سابق اعلٰی اہلکاروں کا جس انداز سے کورٹ مارشل ہونے جا رہا ہے۔ اسے ہمارے کچھ اینکر حضرات وخواتین اور ہر حالت میں فوج کی مخالفت اور اسے بدنام کرنے پر کمر بستہ رہنے والے کچھ سیاستدان حضرات اسے بھی تنقید کا نشانہ بنا کر فوج کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تینوں جرنیلوں کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے جو روایتی اداز سے ان کے خلاف تحقیقات کر ے اور پھر عدالتوں میں سماعت کا نہ ختم ہونے والاایک ایسا سلسلہ شروع جس کی آر میں بطور ادارہ فوج کو بدنام کیا جا سکے۔ وہ سیاتدان جو اپنی سامنے نظر آنے والی کرپشن کو انتقام قرار دے کر عوامی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے کے عادی ہیں یا جن کا بال بال کرپشن و اخلاقی جرائم کے کیچڑ میں لت پت ہے ان کا خیال ہے ان تینوں جرنیلوں کے عدالتی ٹرائل کو میڈیا ٹرائل کی شکل دے کر دنیا کی توجہ ان کی لوٹ مار سے ہٹائی جا سکتی ہے۔ اس لئے وہ تینوں جرنیلوں کو کورٹ مارشل کی ضرورت کے لئے بطور جرنیل بحال کئے جانے پر سیخ پا ہیں۔ حالانکہ انہیں اس موقع پر اپنے انتہائی قابل قدر فوجی ادارے کی پیشہ ورانہ امور کی قدر کرنی چاہئے کہ ادارے کا خود احتسابی کا نظام اس قابل ہے کہ اپنے جرنیلوں کو کٹہرے میں لا سکے اور ایسا فوج کے ایک ایکٹ
'Pakistan army act section 92 in conjunction with section 40'
کے تحت کیا جارہا ہے جس کے تحت ملزمان کے کورٹ مارشل کےدوران حاضر سروس ہونا ضروری ہے۔ اور یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے، دنیا کے بیشتر ممالک برطانیہ و بھارت میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں جس میں فوجی افسر کو کسی بڑے جرم کے ارتکاب کی بدولت ریٹائرمنٹ کے دس سال بعد بھی کورٹ مارشل کے لئے پہلے بحال کیا گیا۔

لیفٹیننٹ جنرل خالد منیر، لیفٹیننَ جنرل افضل مظفر اور میجر جنرل ریٹائرڈ خالد ظہیر کے کورٹ مارشل کا فیصلہ کوئی ہوا میں نہیں کیا گیا۔ ان پر عوامی پیسہ کو خرد برد نہیں بلکہ ایسی جگہ استعمال کرنے کے خلاف پہلے انکوائری کرائی گئی جس کی رپورٹ کی روشنی میں ان تینوں ریٹائرد جرنیلوں کے کورٹ مارشل کا فیصلہ ہوا۔ اور یہ انکوائری فوج کے ایی مایہ ناز افسر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی سے کرائی گئی جو گزشتہ برس بہاولپور میں ریٹائر ہوئے۔ لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد حالانہ ملزمان سے جونیئر تھے لیکن ان کی ایمانداری کو پیش نظر رکھتے ہوئے آرمی چیف نے تینوں ملزمان کی انکوائری انہیں سونپ دی۔ جسے جنرل نعیم خالد نے طے شدہ وقت میں مکمل کر کے رپورٹ جمع کرا دی یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی انتہائی ضروری ہے کہ این ایل سی فراڈ کیس میں تین جرنیلوں کے ساتھ چند سول افسران بھی ملوث پائے گئے ہیں انہیں کی وجہ سے انکوائری مکمل ہونے کا باوجود کورٹ مارشل کی کاروائی شروع کرنے میں تاخیر ہوئی۔ ورنہ فوج کے بارے میں ہمہ وقت غلط فہمیاں پھیلانے والے اور فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والے ہمارے دانشور حضرات بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ فوج میں انکوائری دبانے یا ملزمان کو بچانے کا سرے سے رجحان ہی نہیں ہے۔

یہاں ملتان سے ایک واقعہ کو بطور مثال پیش کرنا چاہتا ہوں، یہ 2002 کی بات ہے ایک اعلٰی سول افسر کے خلاف فوج کے تین افسران انکوائری کر رہے تھے۔ لیکن دوران انکوائری (جسے مانیٹر کیا جا رہا تھا) احساس ہوا کہ انکوائری کمیٹی کے اندر سے اس بد عنوان سول افسر کی مدد کی جا رہی تھی جس کی کرپشن کے قصے ملتان میں زبان زد عام تھے۔ آخر ایک میجر قابو آگیا جو رشوت یا کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ اپنے رشتہ داروں کے دبائو مِیں آکر ملزم کی مدد کر رہا تھا۔ بس پھر کیا تھا میجر کے خلاف فوری انکوائری کا حکم ہوا۔ الزام ثابت ہونے پر میجر صاحب کو تو فوج سے جبری ریٹائرمنٹ کی فوری سزا مل گئی تاہم وہ سول افسر آج بھی اسی طرح بعد از ریٹائرمنٹ کنٹریکٹ پر اپنے عہدے پر فائز ہے۔

یہاں آخر میں اپنے دانشور ساتھیوں سے درخواست کروں گا کہ تینوں ریٹائرڈ جرنیلوں کی ان کے رینک پر بحالی کو کوئی نیا رنگ دینے کی بجائے اپنے فوجی ادارے کو سراہیں کہ ملک میں جہاں اعلٰی عدالتی احکامات کو تسلیم کرنے کی بجائے ہوا میں اڑایا جاتا ہو لیکن فوج کا احتسابی نظام مکمل طور پر فعال بغیر کسی سفارش یا دبائو کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور عوام کو احساس دلایا جائے کہ تینوں جرنیلوں کو نہ تو کہیں تعینات کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی بھی طرح کی ڈیوٹی سونپی گئی ہے۔ ان کی ان کے رینک پر بحالی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے اور قانون کی مدد کے لئے ضروری ہے۔ جس کے لئے فوج بطور ادارہ اور فوجی قیادت خراج تحسین کی مستحق ہے۔
--

Thursday, June 7, 2012

"عاصمہ جہانگیر کی فوج پر الزام تراشی" آخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔۔۔


 

فوج عاصمہ جہانگیر کو کیوں قتل کرائے گی؟ یہ سوال عاصمہ جہانگیر کی پانچ جون کو ہونے والی ہنگامی پریس کانفرنس کے بعد اکثر لوگ پوچھ رہے ہیں۔ کیونکہ پہلی بار ملک میں کسی وکیل یا اہم شہری نے پاک فوج پر کی اعلیٰ قیادت پر  اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے جیسا سنگین الزام لگایا ہے۔ لیکن خدشات یا معاملات کی روشنی میں خاتون ایک بھی دلیل نہیں دے سکی جس کی بناء لوگ اس کے موئقف کی صداقت پر یقین کرتے۔

 

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صابق صدر، دنیا میں خواتین کی واحد چیمپئن (یہ الگ بات ہے کہ آج تک کسی حقیقی مظلوم خاتون کو اس کی مدد سے کوئی انصاف نہیں ملا)، پاکستان کی آئرن لیڈی اور بھارت کی چہیتی عاصمہ جہانگیر نے 5 جون کی شام ایک ہنگامی پریس کانفرنس کا اعلان کیا جس کے لئے صحافی صبح سے انتظار کر رہے تھے۔ عا صمہ جہانگیر نے بڑے جوشیلے انداز میں کہا کہ "میرے قتل کی سازش تیار کی گئی ہے" (بتانے کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی انتہائی اہم نوعیت کا اعلان ہو)۔ عاصمہ نے مزید کہا کہ اس کے قتل کی منصوبہ بندی نان سٹیٹ ایکٹرز (مطلب ملک میں سرگرم انتہا پسند) نے نہیں بلکہ ریاست کے سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام نے کی ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنے قتل کی صورت میں اس کی زمہ داری پیشگی ملک کے سیکورٹی اداروں پر ڈال دی ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ ڈر کر ملک سے بھاگنے والی نہیں۔

 

تاہم حیران کن طور پر عاصمہ جہانگیر نے وہ تمام باتیں پھر سے دوہرائیں جو اس نے حسین حقانی کے میمو گیٹ کے مقدمے کی سماعت کے دوران صحافیوں سے گفتگو کے دوران کی تھیں کہ ملک کی قسمت کا فیصلہ فوج کے جرنیلوں نے نہیں ملک کے عوام کو کرنا ہے۔ البتہ پہلی بار جرنیلوں کے ساتھ اس نے 17 ججوں کا بھی ذکر کیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جرنیلوں، ججوں اور پارلیمینٹیرینز کو توسیع ملنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ علاوہ اذیں اس کو ایجنسی کے سربراہ کو فوج کا سربراہ بنائے جانے پر بھی اعتراض تھا (یہ اشارہ جنرل کیانی کی طرف تھا جو فوج کی اعلیٰ کمانڈ سنبھالنے سے پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ تھے)۔

 

گو عاصمہ جہانگیر نے پریس کانفرنس کو ہنگامی قرار دے کر اچانک اس کا اعلان کیا تھا لیکن ایک روز قبل 4 جون کی شب کاشف عباس اور نجم سیٹھی کے ٹاک شوز میں وہ اپنا مدعا ذیادہ کھلے انداز میں بیان کر چکی تھی۔ نجم سیٹھی کے پروگرام میں اس واضح طور پر فوج کے اعلیٰ حکام کو اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنا کا زمہ دار قرار دیتے ہوئے بار بار کسی اہم آدمی کا ذکر بھی کیا جس نے اسے منصوبہ کی اطلاع دی۔ مگر حیران کن طور پر نہ تو نجم سیٹھی نہ ہی کاشف عباس نے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی کہ وہ کون صاحب تھے جنہوں نے عاصمہ جہانگیر تک اس کے قتل کی منصوبہ بندی کی اطلاع پہنچائی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ نجم سیٹھی نے دو ٹوک الفاظ میں عاصمہ جہانگیر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کون آپ کو ہاتھ لگانے کی جراَت بھی کرتا ہے۔

 

عاصمہ جہانگیر کا تعلق پاکستان کے اس ترقی پسند طبقے سے ہے جس کی مذہب بیزاری مسلمہ حقیقت کی طرح سب پر عیاں ہے، لیکن یہ عجیب طرح کی مذہب بیزاری ہے جس نے اس طبقہ کو ہندو انتہا پسندوں سے انتہائی قریب اور ان کا اس حد تک حامی بنا دیا ہے کہ وہ ان کے مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے؟ ترقی پسند ہونا کوئی گناہ نہیں نہ ہی کسی کے ذاتی نظریئے و موقف پر اتراض کرنے کا ہمیں کوئی حق حاصل ہے۔ لیکن اپنی مذہبی اقدار سے بغاوت و مذہبب بیزاری کا اظہار کرنے والا یہ طبقہ جب دیوالی پر دیئے جلا کر واہگہ پر ہندووَں سے یک جہتی کا اظہار کے لئے پہنچتا ہے اور وہاں سے ماتھے پر تلک لگوا کر خوشی سے جھومتا ہے تو پھر ہر پاکستانی کو ان سے پوچھنے کا حق ہے کہ اسلام سے بیزاری اور ہندومت سے دلداری کا کیا مطلب؟ پھر پاکستان کام یہی طبقہ ملک کے سیکورٹی اداروں کا ہمیشہ سے مخالف رہا ہے، جس کی وجہ ملک میں بار بار لگنے والے مارشل لاء بتائے جاتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے ملک کی سلامتی کے سب سے بڑے دشمن بھارت سے مل کر وطن کے رکھوالوں کے خلاف سازشیں کی جائیں؟ حالانکہ ملک میں بہت سے ایسے نامور نام ہیں (نوبزادہ نصراللہ خان صاحب جیسے) جنہوں نے فوجی آمروں کی مخالفت میں جیلیں کاٹی لیکن بھارت کی ہمنوائی کبھی نہیں کی نہ ہی فوج سے اختلافات کو اپنے لئےوجہ شہرت بنایا۔

 

لیکن گزشتہ ساڑھے چار سال سے پاک فوج سیاست نسے دور ہے، مکمل طور پر لاتعلق ہے۔ عوام الناس کے شدید ترین تحفظات اور ملک میں امن و امان اور انتظامی بد حالی کی بد ترین صورتحال کے باوجود فوج نےسیاست میں مداخلت نہیں کی یہاں تک کہ خارجہ پالیسی، نیٹو سپلائی کی بحالی سے لے کر امریکہ سے تعلقات نو کی تشکیل تک سب کچھ پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے تو پھر عاصمہ جہانگیر کو فوج پر اپنےقتل کی منصوبہ بندی کرنے جیسے سنگین الزام لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اگر فوج پر تنقید ہی اس کا سبب ہے پھر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کو یہ الزام لگانا چاہئے تھا جس نے "ملٹری انکارپوریٹ" نامی کتاب لکھ کر  پاک فوج کو بد نام کرنے کی عملی کوشش کرنے کے علاوہ اخبارات میں کالم کے ذریعے بھی فوج پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا اور ٹیلی ویژن پر بھی فوج کے خلاف بولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ فوج کو جنوبی ایشیا میں انتشار و بد امنی کا سبب اور دہشت گردی کو فروغ دینے ادارہ کہنے والے احمد رشید نے بھی کبھی نہیں کہا کہ اسے فوج کی طرف سے قتل کرائے جانے کا خدشہ ہے، حالانکہ اس نے اپنی کتابوں میں فوج کے خلاف جو زہر اگلا ہے عاصمہ جہانگیر نے اس کا ایک فیصد بھی نہیں کہا۔ اور بھی ایسے بہت سے ایسے صحافی و تبصرہ نگار ہیں جو فوج اور پر تنقیند کی ہی کھٹی کھا رہے ہیں۔ تو پھر عاصمہ جہانگیر ہی کیوں؟

 

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف عاصمہ جہانگیر ہی دے سکتی ہیں کہ فوج اسے کیوں قتل کرانا چاہے گی؟ یہ کہہ کر تو اس نے ملک دشمن قوتوں اور ان کی پاک فوج و آئی ایس آئی مخالف ایجنسیوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے کہ وہ عالمی سطح پر پاک فوج و پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کے لئے عاصمہ جہانگیر کو قتل کرا دیں۔  پھر ملک میں سر گرم دہشت گرد جن کا ہدف ہی پاک فوج اور فوجی تنصیبات ہیں عاصمہ جہانگیر کو ٹھکانے لگا کر پاک فوج کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان تمام خطرات کے باوجود اگر عاصمہ جہانگیر نے فوج پر اتنا سنگین الزام لگایا ہے تو پھر اس کے مقاصد کا منظر عام پر آنا بے حد ضروری ہے ملک کے لئے بھی اور پاک فوج کی ساکھ کے لئے بھی۔ جس کے لئے سب سے پہلے تو وہ سورس عوام کے سامنے لایا جائے جس نے عاصمہ جہانگیر کو اس کے قتل کے منصوبہ کی اطلاع دی، پھر وہ سور س بتائے کہ یہ منصوبہ کب، کہا ں اور کس نے تیار کیا؟

 

عاصمہ جہانگیر جیسی جہاں دیدہ وکیل اگر سورس بتانے کو تیار نہیں تو پھر عوام اس کے خدشات اور فوج پر سنگین الزام کو کیا سمجھے کہ یہ سب سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا گیا؟ جی نہیں، بالکل نہیں۔ اس سے بڑھ کر عاصمہ جہانگیر کو اور شہرت کیا ملے گی جو آج اسے حاصل ہے۔  کہیں عاصمہ جہانگیر کی پریس کانفرنس اور اس سے ایک روز قبل فوج کے میڈیا ٹرائل کا تعلق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے کے حوالے سے منظر عام پر  آنے والے سکینڈل سے تو تعلق نہیں؟  کہ اس طرح فوج کو اپنی طرف مصروف رکھ کر  اسے اندرون خانہ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کی حمایت و مدد سے روکا جائے؟ کیونکہ 3 جون کی شب

"Chief Justice Iftikhar Chaudhary Family Gate Scandal Trap Story Disclosed by Shaheen Sehbai"

کے عنوان سے ایک ٹی وی کیمرہ انٹر ویو "واشنگٹن بیٹ" نامی ویب سائٹ کے زریعے یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا۔ انٹرویو دیکھیں تو آپ کو انداذہ ہوگا کہ اس پروگرام کا اہتمام اس سکینڈل کو منظر عام پر لانے کے لئے کیا گیا تھا۔ یوں اتنا بڑا سکینڈل وقت سے پہلے ہی منظر عام ہر آگیا جس پر عاصمہ جہانگیر کو یقیناْ صدمہ پہنچا ہوگا کیونکہ سکینڈل کے منظر عام پر آنے سے اس کے وہ تمام مقاصد جو اس کو خفیہ رکھ کر حاصل کیئے جا سکتے  تھے وہ دم توڑ گئے۔ ویسے بھی گزشتہ ایک برس سے عاصمہ جہانگیر  اپنے جیسے دیگر بہت سے وکلاء ساتھیوں کی طرح چیف جسٹس افتخار چوہدری سے ہر گز خوش نہیں۔  5 جون کی پریس کانفرنس میں اس نے فوج کے ساتھ 17 ججوں کے خلاف بول کر اِس نے اپنے بغض باطن کا کر ہی دیا ہے۔ جس کے بعد عاصمہ جہانگیر کے پاک فوج کے خلاف الزامات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب چیف جسٹس کو چاہئے کہ وہ اپنے بیٹے کی طرح عاصمہ جہانگیر کی پریس کانفرنس کا بھی سو موٹو نوٹس لیں اور فوج پر الزامات کے پس پردہ مقاصد سے پردہ اٹھا کر انہیں عوام الناس کے سامنے لایا جائے۔ اگر واقعی کے الزامات میں صداقت ہے تو پھر منصوبہ سازوں کو سزا ضرور ملنی چاہئے۔۔۔

 

 

تحریر : خالد بیگ

Truth by Kbaigححھ


--

Friday, June 1, 2012

ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری پر پریشان پاکستانی دانشوروں کا منافقانہ طرزعمل



تحریر: خالد بیگ

ڈاکٹر شکیل



حیرانی کی بات ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بعد ڈاکٹر غلام نبی فائی کی گرفتاری پر پاکستان میں خاموش رہنے والے ادیب، دانشور، صحافی و تبصرہ نگار شدید بے حالی کا شکار ہیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا ورنہ وہ ڈولی میں بٹھا کر برات کی شکل میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی سفارت خانے چھوڑ کر آتے۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کہاں سے دلائل ڈھونڈ کر لائیں جن سے ثابت کیا جا سکے کہ ڈاکٹر آفریدی آج کے دور کا سب سے بڑا ہیرو ہے۔ جس نے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو گرفتار کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور اقوام عالم کو تباہی سے بچا لیا۔

            اس کے برعکس امریکہ و یورپ میں ڈاکٹروں کی تنظیمیں صرف ڈاکٹر شکیل ہی نہیں امریکی حکومت اور سی-آئی-اے کی بھی مذمت کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس نے طب کے پیشے کی توہین کرتے ہوئے ایبٹ آباد کے بہت سے معصوم بچوں اور ان لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگا دیا ہے جنہیں ہیپا ٹائٹس بی کے صرف ایک حفاضتی ٹیکہ لگانے کے بعد چھوڑ دیا گیا، جبکہ یہ تین ٹیکوں پر مشتمل کورس ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کی عالمی تنظیموں کے مطابق ڈاکٹر شکیل نےاپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کا احساس پاکستانی قوم کو چند برسوں بعد اس وقت ہوگا جب صرف ایک انجیکشن لگوانے والے ایبٹ آباد کے معصوم بچوں و دیگر جعلی ویکسینیشن کرانے والوں کو موزی مرض نے آ لیا۔  پاکستان میں صحت کے حوالے سے دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ویکسینیشن خاص طور پر پولیو کے قطروں کے بارے میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل کے اقدام نے عالمی اداروں کے پروگرامز کی مخالفت کرنے والے قبائلیوں کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنے موقف کی صداقت کے لئے ڈاکٹر آفریدی کی مثال کو بطور ثبوت پیش کریں کہ اس کے ہیلتھ پروگرام کا مقصد وہاں بسنے والوں کی صحت نہیں بلکہ امریکی و سی-آئی-اے کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔

پولیو اور اس جیسی ویکسین کی مہموں پر اعتبار کیسے کیا جائے؟


ڈاکٹر آفریدی کے لئے تینتیس برس کی سزا کو ڈاکٹروں کی عالمی تنظیمیں مذاق قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اتنے بھیانک جرم پر جس میں ڈاکٹفر آفریدی نے اپنے پیشے اور ڈگری کو استعمال کیا اسے انتہائی عبرت ناک سزا ملنی چاہئے۔ انہوں نے پاکستان میں ڈاکٹروں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ و ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف احتجاج کریں کیوںکہ یہ ان کے پیشہ کا تقاضہ بھی ہے جس سے وہ منسلک ہیں ورنہ سی-آئی-اے انہیں اپنے مضموم مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہے گی۔

سی-آئی-اے کی مزمت کرتے ہوئے نیویارک میں امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم نے سوال کیا ہے کہ اگر چین اپنے مطلوب دہشت گرد اسد ابو خلیل کو، جسے امریکہ نے پناہ دے رکھی ہے، تلاش کرنے کے لئے امریکہ ہی کے کسی ڈاکٹر کو استعمال کرتے ہوئے امریکی بچوں کو جعلی ویکسین کا شکار بنائے اور اپنے مطلوب دہشت گرد کو قتل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو امریکی عوام، میڈیا، سول سوسائٹی اور ڈاکٹروں کے علاوہ حکومت کا کیا رد عمل ہوگا؟اسی طرح ایران کے خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے امریکہ میں پناہ گزین ایران مخالف دہشت گردون تک پہنچنے کے لئے وہی حربہ استعمال کرے جو امریکہ نے پاکستان میں استعمال کیا تو پھر امریکیوں کو کیسا لگے گا؟ جبکہ ایران برہا احتجاج کر چکا ہے کہ انہیں دہشت گرد گروپوں کی مدد سے ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کرایا جا رہا ہے۔ سی-آئی-اے کے خلاف مزمتی بیان میں سی-آئی-اے کے زیر اثر چلنے والے کیوبا کے دہشت گرد گروپ کے سربراہ کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا گیا ہے کہ امریکہ میں آباد کیوبن نژاد ڈاکٹر سیکڑوں بچوں کی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے دہشت گردوں کے سربراہ تک پہنچنے اور اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو امریکہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کر یگا؟ کیا اسے بھی تینتیس برص کی ہی سزا ہوگی؟ اگر ایسا ہوا تو وہ ڈاکٹر اور اسکے اہل خانہ اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کریں گے۔



ڈاکٹر آفریدی کی گرفتاری پر امریکی ردعمل انتہائی شرمناک اور پاکستان کی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے۔ جسے کسی بھی طرح ڈرون حملوں میں بے گناہوں کے قتل عام یا سلالہ چیک پوسٹ پر ۱۲۴ پاکستانی فوجیوں کو ناحق شہید کرنے سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا۔  امریکیوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر ڈاکٹر آفریدی کے علم میں آ ہی  گیا تھا کہ اسامہ ایبٹ آباد میں موجود ہے تو کیا یہ اس کا فرض نہیں تھا کہ وہ حکومت پاکستان یا پاکستانی خفیہ اداروں کو اس کی اطلاع دے؟ کیا اس طرح امریکہ نے  اپنے مفاد کے لئے پاکستانی معاشرے میں غداری اور اپنی ریاست سے وابستگی کے خلاف ایسا بیج نہیں بو دیا جس کے اثرات ختم کرنے کے لئے پاکستانی نسلوں کو بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دینا پڑیں گی؟  اگر امریکہ یہ کہتا ہے کہ اسے پاکستانی خفیہ اداروں پر اعتبار نہیں تو یہ توہین ہے پاکستان کے ان تمام فوجی و پولیس، سول آبادی و خفیہ اداروں سے تعلق رکھنے والے ان چالیس ہزار جوانوں اور عام شہریوں کے خون کی جودہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ مین شامل ہو کر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جنل ڈیمپسی امریکہ میں تسلیم کر چکا ہے کہ امریکی فوجیوں کی جتنی نعشیں ہم افغانستان سےواپس لائے ہیں، اس سے دگنی تعداد میں پاکستانی فوجی اپنی ہی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔ تو یہ دہشت گرد کون ہیں جو پاکستان میں پاکستانی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں؟ انہیں جدید اسلحہ اور اس کے استعمال کی تربیت کون فراہم کر رہا ہے؟ انہیں مالی معاونت کہاں سے مل رہی ہے؟ ان کے پاس مواصلات کا نظام کس طرح چل رہا ہے؟ تو کیا پاکستانی عوام یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ امریکہ و بھارت جیسے اس کے اتحادی مل کر پاکستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں؟ نائین الیون میں اگر تین لاکھ امریکی ہلاک ہو گئے ہوں تو امریکہ اب تک عراق و افغانستان میں تیس لاکھ انسانوں کی بلی لے چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔

یہاں امریکی میرین بریڈلے میننگ کا ذکر بے حد ضروری ہے۔ امریکہ نے اپنے تیئس سالہ فوجی جوان کو کس جرم میں گرفتار کر رکھا ہے؟ جس کے بارے میں امکان ہے کہ اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ اس نے امریکی فوجی راز افشاء نہیں کئے، اس نے قتل یا اور کوئی سنگین جرم نہیں کیا تو پھر اس پر مقدمہ کیوں؟ اس نے اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر امریکی فوجیوں کے جنگی جرائم کا پردہ چاک کیا، تو پھر اس کے لئے سزا کیوں؟  کیا اقوام متحدہ یا جنیوا کنونشن جنگ کے اصول وضع نہیں کرتے اور اگر کسی ملک کی فوج ان سے انحراف کرے تو اس پر مقدمہ کے لئے عالمی عدالت میں مقدمہ کا کیا جواز ہے؟ امریکہ کو تو اپنے سپاہی کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا کہ اس نے عالمی قوانین کے مطابق جنگی جرائم میں ملوث اپنے ہی ساتھیوں کو سامنے لا کر امریکہ کی مدد کی کہ وہ اپنی فوج کی صفوں میں موجود ذہنی مریضوں کا محاسبہ کر کے اپنی ساکھ بہتر بنا سکے۔  دوسرے لفظوں میں اس نے ڈاکٹر شکیل کی طرح کے مجرموں کا بھانڈا پھوڑ کر اقوام متحدہ و امریکہ ہی نہیں بلکہ انسانیت کی مدد کی ہے۔ لیکن  ایسا نہیں ہوگا کیونکہ عراق و افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی پہرست اس قدر طویل ہے کہ اگر امریکی فوج میں زہنی مریضوں یا تشدد و قتل کر کے خوشی محسوس کرنے والوں کی فہرست تیار کی جائے تو آدھی سے زیادہ امریکی فوج جیلوں میں بند ہوگی۔

کیا اس تکون سے بہت کچھ واضح نہیں ہو جاتا؟


ڈاکٹر آفریدی پر امریکی موقف ہو یا ڈاکٹر غلام نبی فائی کے خلاف امریکی حکومت کا متعصبانہ و منافقانہ طرزعمل یہ نشاندہی کرتا ہے امریکی فطائی ذہنیت کی۔  اصولی طور پر امریکہ کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ وہ جمہوریت، جمہوری انسانی حقوق یا انسانیت کچھ بھی نہیں مانتا کیونکہ وہ طاقتور ہے اور دنیا میں بالاتر ہے۔ وہ فطائیت پر یقین رکھتا ہے۔ جو بھی اس کے مفادات کی راہ میں آئے اسے اس دنیا میں رہنے یا جینے کا کوئی حق نہیں۔ رہی بات ڈاکٹر آفریدی کو سزا کی تو تیس مئی کو ڈان اخبار کے مطابق ڈاکٹر شکیل کو سزا اسکے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے ایک گروہ لشکر اسلام اور اس کے سبراہ منگل باغ سے تعلق اور ان کے زخمیوں کے علاج معالجے کی بناء پر دی گئِ ہے۔ اس طرح اگر سی-آئی-اے  کے ڈاکٹر شکیل اور ڈاکٹر شکیل کے منگل باغ گروپ کے ساتھ تعلق یا اس تکون کو دیکھا جائے تو پھر کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ پاکستان میں منگل باغ ہو یا دیگر اس طرح کے بہت سے گروہ یہ سب امریکہ و سی-آئی-اے کی آشیر باد سے ہی پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔۔۔