My Blog List

Friday, June 1, 2012

ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری پر پریشان پاکستانی دانشوروں کا منافقانہ طرزعمل



تحریر: خالد بیگ

ڈاکٹر شکیل



حیرانی کی بات ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بعد ڈاکٹر غلام نبی فائی کی گرفتاری پر پاکستان میں خاموش رہنے والے ادیب، دانشور، صحافی و تبصرہ نگار شدید بے حالی کا شکار ہیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا ورنہ وہ ڈولی میں بٹھا کر برات کی شکل میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی سفارت خانے چھوڑ کر آتے۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کہاں سے دلائل ڈھونڈ کر لائیں جن سے ثابت کیا جا سکے کہ ڈاکٹر آفریدی آج کے دور کا سب سے بڑا ہیرو ہے۔ جس نے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو گرفتار کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور اقوام عالم کو تباہی سے بچا لیا۔

            اس کے برعکس امریکہ و یورپ میں ڈاکٹروں کی تنظیمیں صرف ڈاکٹر شکیل ہی نہیں امریکی حکومت اور سی-آئی-اے کی بھی مذمت کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس نے طب کے پیشے کی توہین کرتے ہوئے ایبٹ آباد کے بہت سے معصوم بچوں اور ان لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگا دیا ہے جنہیں ہیپا ٹائٹس بی کے صرف ایک حفاضتی ٹیکہ لگانے کے بعد چھوڑ دیا گیا، جبکہ یہ تین ٹیکوں پر مشتمل کورس ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کی عالمی تنظیموں کے مطابق ڈاکٹر شکیل نےاپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کا احساس پاکستانی قوم کو چند برسوں بعد اس وقت ہوگا جب صرف ایک انجیکشن لگوانے والے ایبٹ آباد کے معصوم بچوں و دیگر جعلی ویکسینیشن کرانے والوں کو موزی مرض نے آ لیا۔  پاکستان میں صحت کے حوالے سے دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ویکسینیشن خاص طور پر پولیو کے قطروں کے بارے میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل کے اقدام نے عالمی اداروں کے پروگرامز کی مخالفت کرنے والے قبائلیوں کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنے موقف کی صداقت کے لئے ڈاکٹر آفریدی کی مثال کو بطور ثبوت پیش کریں کہ اس کے ہیلتھ پروگرام کا مقصد وہاں بسنے والوں کی صحت نہیں بلکہ امریکی و سی-آئی-اے کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔

پولیو اور اس جیسی ویکسین کی مہموں پر اعتبار کیسے کیا جائے؟


ڈاکٹر آفریدی کے لئے تینتیس برس کی سزا کو ڈاکٹروں کی عالمی تنظیمیں مذاق قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اتنے بھیانک جرم پر جس میں ڈاکٹفر آفریدی نے اپنے پیشے اور ڈگری کو استعمال کیا اسے انتہائی عبرت ناک سزا ملنی چاہئے۔ انہوں نے پاکستان میں ڈاکٹروں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ و ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف احتجاج کریں کیوںکہ یہ ان کے پیشہ کا تقاضہ بھی ہے جس سے وہ منسلک ہیں ورنہ سی-آئی-اے انہیں اپنے مضموم مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہے گی۔

سی-آئی-اے کی مزمت کرتے ہوئے نیویارک میں امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم نے سوال کیا ہے کہ اگر چین اپنے مطلوب دہشت گرد اسد ابو خلیل کو، جسے امریکہ نے پناہ دے رکھی ہے، تلاش کرنے کے لئے امریکہ ہی کے کسی ڈاکٹر کو استعمال کرتے ہوئے امریکی بچوں کو جعلی ویکسین کا شکار بنائے اور اپنے مطلوب دہشت گرد کو قتل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو امریکی عوام، میڈیا، سول سوسائٹی اور ڈاکٹروں کے علاوہ حکومت کا کیا رد عمل ہوگا؟اسی طرح ایران کے خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے امریکہ میں پناہ گزین ایران مخالف دہشت گردون تک پہنچنے کے لئے وہی حربہ استعمال کرے جو امریکہ نے پاکستان میں استعمال کیا تو پھر امریکیوں کو کیسا لگے گا؟ جبکہ ایران برہا احتجاج کر چکا ہے کہ انہیں دہشت گرد گروپوں کی مدد سے ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کرایا جا رہا ہے۔ سی-آئی-اے کے خلاف مزمتی بیان میں سی-آئی-اے کے زیر اثر چلنے والے کیوبا کے دہشت گرد گروپ کے سربراہ کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا گیا ہے کہ امریکہ میں آباد کیوبن نژاد ڈاکٹر سیکڑوں بچوں کی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے دہشت گردوں کے سربراہ تک پہنچنے اور اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو امریکہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کر یگا؟ کیا اسے بھی تینتیس برص کی ہی سزا ہوگی؟ اگر ایسا ہوا تو وہ ڈاکٹر اور اسکے اہل خانہ اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کریں گے۔



ڈاکٹر آفریدی کی گرفتاری پر امریکی ردعمل انتہائی شرمناک اور پاکستان کی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے۔ جسے کسی بھی طرح ڈرون حملوں میں بے گناہوں کے قتل عام یا سلالہ چیک پوسٹ پر ۱۲۴ پاکستانی فوجیوں کو ناحق شہید کرنے سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا۔  امریکیوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر ڈاکٹر آفریدی کے علم میں آ ہی  گیا تھا کہ اسامہ ایبٹ آباد میں موجود ہے تو کیا یہ اس کا فرض نہیں تھا کہ وہ حکومت پاکستان یا پاکستانی خفیہ اداروں کو اس کی اطلاع دے؟ کیا اس طرح امریکہ نے  اپنے مفاد کے لئے پاکستانی معاشرے میں غداری اور اپنی ریاست سے وابستگی کے خلاف ایسا بیج نہیں بو دیا جس کے اثرات ختم کرنے کے لئے پاکستانی نسلوں کو بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دینا پڑیں گی؟  اگر امریکہ یہ کہتا ہے کہ اسے پاکستانی خفیہ اداروں پر اعتبار نہیں تو یہ توہین ہے پاکستان کے ان تمام فوجی و پولیس، سول آبادی و خفیہ اداروں سے تعلق رکھنے والے ان چالیس ہزار جوانوں اور عام شہریوں کے خون کی جودہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ مین شامل ہو کر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جنل ڈیمپسی امریکہ میں تسلیم کر چکا ہے کہ امریکی فوجیوں کی جتنی نعشیں ہم افغانستان سےواپس لائے ہیں، اس سے دگنی تعداد میں پاکستانی فوجی اپنی ہی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔ تو یہ دہشت گرد کون ہیں جو پاکستان میں پاکستانی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں؟ انہیں جدید اسلحہ اور اس کے استعمال کی تربیت کون فراہم کر رہا ہے؟ انہیں مالی معاونت کہاں سے مل رہی ہے؟ ان کے پاس مواصلات کا نظام کس طرح چل رہا ہے؟ تو کیا پاکستانی عوام یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ امریکہ و بھارت جیسے اس کے اتحادی مل کر پاکستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں؟ نائین الیون میں اگر تین لاکھ امریکی ہلاک ہو گئے ہوں تو امریکہ اب تک عراق و افغانستان میں تیس لاکھ انسانوں کی بلی لے چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔

یہاں امریکی میرین بریڈلے میننگ کا ذکر بے حد ضروری ہے۔ امریکہ نے اپنے تیئس سالہ فوجی جوان کو کس جرم میں گرفتار کر رکھا ہے؟ جس کے بارے میں امکان ہے کہ اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ اس نے امریکی فوجی راز افشاء نہیں کئے، اس نے قتل یا اور کوئی سنگین جرم نہیں کیا تو پھر اس پر مقدمہ کیوں؟ اس نے اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر امریکی فوجیوں کے جنگی جرائم کا پردہ چاک کیا، تو پھر اس کے لئے سزا کیوں؟  کیا اقوام متحدہ یا جنیوا کنونشن جنگ کے اصول وضع نہیں کرتے اور اگر کسی ملک کی فوج ان سے انحراف کرے تو اس پر مقدمہ کے لئے عالمی عدالت میں مقدمہ کا کیا جواز ہے؟ امریکہ کو تو اپنے سپاہی کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا کہ اس نے عالمی قوانین کے مطابق جنگی جرائم میں ملوث اپنے ہی ساتھیوں کو سامنے لا کر امریکہ کی مدد کی کہ وہ اپنی فوج کی صفوں میں موجود ذہنی مریضوں کا محاسبہ کر کے اپنی ساکھ بہتر بنا سکے۔  دوسرے لفظوں میں اس نے ڈاکٹر شکیل کی طرح کے مجرموں کا بھانڈا پھوڑ کر اقوام متحدہ و امریکہ ہی نہیں بلکہ انسانیت کی مدد کی ہے۔ لیکن  ایسا نہیں ہوگا کیونکہ عراق و افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی پہرست اس قدر طویل ہے کہ اگر امریکی فوج میں زہنی مریضوں یا تشدد و قتل کر کے خوشی محسوس کرنے والوں کی فہرست تیار کی جائے تو آدھی سے زیادہ امریکی فوج جیلوں میں بند ہوگی۔

کیا اس تکون سے بہت کچھ واضح نہیں ہو جاتا؟


ڈاکٹر آفریدی پر امریکی موقف ہو یا ڈاکٹر غلام نبی فائی کے خلاف امریکی حکومت کا متعصبانہ و منافقانہ طرزعمل یہ نشاندہی کرتا ہے امریکی فطائی ذہنیت کی۔  اصولی طور پر امریکہ کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ وہ جمہوریت، جمہوری انسانی حقوق یا انسانیت کچھ بھی نہیں مانتا کیونکہ وہ طاقتور ہے اور دنیا میں بالاتر ہے۔ وہ فطائیت پر یقین رکھتا ہے۔ جو بھی اس کے مفادات کی راہ میں آئے اسے اس دنیا میں رہنے یا جینے کا کوئی حق نہیں۔ رہی بات ڈاکٹر آفریدی کو سزا کی تو تیس مئی کو ڈان اخبار کے مطابق ڈاکٹر شکیل کو سزا اسکے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے ایک گروہ لشکر اسلام اور اس کے سبراہ منگل باغ سے تعلق اور ان کے زخمیوں کے علاج معالجے کی بناء پر دی گئِ ہے۔ اس طرح اگر سی-آئی-اے  کے ڈاکٹر شکیل اور ڈاکٹر شکیل کے منگل باغ گروپ کے ساتھ تعلق یا اس تکون کو دیکھا جائے تو پھر کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ پاکستان میں منگل باغ ہو یا دیگر اس طرح کے بہت سے گروہ یہ سب امریکہ و سی-آئی-اے کی آشیر باد سے ہی پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔۔۔





No comments:

Post a Comment